خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا

خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا
by سائل دہلوی

خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا
تو صحن چمن میں نہ گل ہو نہ لالہ

لیا تیرے عاشق نے برسوں سنبھالا
بہت کر گیا مرنے والا کسالا

پئے فاتحہ ہاتھ اٹھاوے گا کوئی
سر تربت بیکساں آنے والا

اسی گریہ کے تار سے میری آنکھیں
بنا دیں گی ندی بہا دیں گی نالہ

بٹھا کر تمہیں شمع کے پاس دیکھا
تم آنکھوں کی پتلی وہ گھر کا اجالا

خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا

دیا حکم ساقی کو پیر مغاں نے
پئے محتسب جام و مینا اٹھا لا

یہ سنتے ہی مے خوار بولے خوشی سے
ہمیں سا ہے یہ نیک اللہ والا

حقیقت میں سائلؔ نے ذوق ادب سے
جہاں تک اچھالا گیا نام اچھالا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse