خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پیرہن حسن تار تار نہ ہو
برنگ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وفا کا امیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دل وحشی بہار آنے دے
ابھی سے بہر خدا اتنا بے قرار نہ ہو
ٹپک کے آنکھوں سے آئے لہو جو دامن تک
تو اس بہار سے بہتر کوئی بہار نہ ہو
حیا کی بات ہے اب تک قفس میں زندہ ہوں
چمن میں جاؤں تو نرگس سے آنکھ چار نہ ہو
بہار آئی ہے گھٹ گھٹ کے جان دے بلبل
قفس میں نکہت گل کی امیدوار نہ ہو
اشارۂ گل و بلبل پہ چشمک نرگس
الٰہی راز کسی کا بھی آشکار نہ ہو
بچھا ہے دام تمنا اسیر ہو بلبل
قفس کی یاد میں اس طرح بے قرار نہ ہو
اسیر دام نہ ہونا ذرا سنبھل اے دل
خیال گیسوئے پر خم گلے کا بار نہ ہو
جو دیکھ لے مجھے ساقی نشیلی آنکھوں سے
یہ مست پھر کبھی شرمندۂ خمار نہ ہو
عبث ہے ذکر شراب طہور اور واعظ
وہ بات کر جو کسی دل کو ناگوار نہ ہو
وصال جب نہیں ممکن تو دل پہ جبر اچھا
وہ کیا کرے جسے دل ہی پر اختیار نہ ہو
وہ تیر کیا جو کسی کو نہ کر سکے بسمل
نگاہ ناز وہ کیا ہے جو دل کے پار نہ ہو
مزاج یار مکدر نہ ہونے پائے یاسؔ
بلند دامن زیں کہیں سے غبار نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |