خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
دم اب اکتا گیا اللہ اکبر کب سے جیتے ہیں
سمجھ لے قاصدوں نے کچھ تو ایسی ہی خبر دی ہے
کہیں کیا تجھ سے اے ناصح کہ جس مطلب سے جیتے ہیں
کسی حالت نہ ہم سے بڑھ سکے گی رات فرقت کی
کہ ہم بازی سیہ بختی میں بھی اس شب سے جیتے ہیں
دم اپنا گھٹ کے کب کا ہجر جاناں میں نکل جاتا
مددگاریٔ شور نعرۂ یا رب سے جیتے ہیں
اسے باور کر اے غم خوار کب کے مر گئے ہوتے
پیام وصل جب سے سن لیا ہے تب سے جیتے ہیں
زباں قابو میں ہے سننے کو تشبیہیں سنے جاؤ
نزاکت میں کہاں اوراق گل اس لب سے جیتے ہیں
عبث دریافت کرتے ہو سبب اس سخت جانی کا
خدا جانے کہ ہم اے شادؔ کس مطلب سے جیتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |