خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے جی
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی وحشت وگرنہ پہلے تو
ہاتھ کے ناخن بڑھے سر کے ہمارے مو بڑھے
تجھ کو دشمن واں شرارت سے جو بھڑکاتے ہے روز
چاہتے ہیں اور شر اے شوخ آتش خو بڑھے
کچھ تپ غم کو گھٹا کیا فائدہ اس سے طبیب
روز نسخے میں اگر خرفہ گھٹے کاہو بڑھے
پیشوائی کو غم جاناں کی چشم دل سے ذوقؔ
جب بڑھے نالہ تو اس سے بیشتر آنسو بڑھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |