خفا مت ہو مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں
خفا مت ہو مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں
مرا سر رہے آستانہ بہت ہیں
بہت دور ہے اپنے نزدیک تو بھی
تجھے یاد کافر بہانے بہت ہیں
بہانے نہ کر مجھ سے اے چشم گریاں
ابھی اشک مجھ کو بہانے بہت ہیں
مرے چشم و دل اور جگر سب ہیں حاضر
تو خاطر نشاں رکھ نشانے بہت ہیں
کشش دل کی ہی کام کرتی ہے ورنہ
فسوں سینکڑوں ہیں فسانے بہت ہیں
جنوں نقد داغ جگر مانگتا ہے
یے کہہ دو کہ اب تو خزانے بہت ہیں
بہت کم ہے سچ اس زمانہ میں احساںؔ
یہاں جھوٹ کے کارخانے بہت ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |