خواب و خیال

خواب و خیال
by میر تقی میر
314931خواب و خیالمیر تقی میر

خوشا حال اس کا جو معدوم ہے
کہ احوال اپنا تو معلوم ہے
رہیں جان غمناک کو کاہشیں
گئیں دل سے نومید سو خواہشیں
زمانے نے رکھا مجھے متصل
پراگندہ روزی پراگندہ دل
گئی کب پریشانی روزگار
رہا میں تو ہم طالع زلف یار
وطن میں نہ اک صبح میں شام کی
نہ پہنچی خبر مجھ کو آرام کی
اٹھاتے ہی سر یہ پڑا اتفاق
کہ دشمن ہوئے سارے اہل وفاق
جلاتے تھے مجھ پر جو اپنا دماغ
دکھانے لگے داغ بالاے داغ
زمانے نے آوارہ چاہا مجھے
مری بیکسی نے نباہا مجھے
رفیقوں سے دیکھی بہت کوتہی
غریبی نے اک عمر کی ہمسری
مجھے یہ زمانہ جدھر لے گیا
غریبانہ چندے بسر لے گیا
بندھا اس طرح آہ بار سفر
کہ نے زاد رہ کچھ نہ یار سفر
دل اک یار سو بے قرار بتاں
غبار سر رہگذار بتاں
گرفتار رنج و مصیبت رہا
غریب دیار محبت رہا
چلا اکبرآباد سے جس گھڑی
در و بام پر چشم حسرت پڑی
کہ ترک وطن پہلے کیونکر کروں
مگر ہر قدم دل کو پتھر کروں
دل مضطرب اشک حسرت ہوا
جگر رخصتانے میں رخصت ہوا
کھنچا ساری رہ دامن چاک دل
رہا بر قفا روے غمناک دل
پس از قطع رہ لائے دلی میں بخت
بہت کھینچے یاں میں نے آزار سخت
جگر جور گردوں سے خوں ہوگیا
مجھے رکتے رکتے جنوں ہوگیا
ہوا خبط سے مجھ کو ربط تمام
لگی رہنے وحشت مجھے صبح و شام
کبھو کف بہ لب مست رہنے لگا
کبھو سنگ در دست رہنے لگا
کبھو غرق بحر تحیر رہوں
کبھو سر بہ جیب تفکر رہوں
یہ وہم غلط کار یاں تک کھنچا
کہ کار جنوں آسماں تک کھنچا
نظر رات کو چاند پر گر پڑی
تو گویا کہ بجلی سی دل پر پڑی
مہ چاردہ کار آتش کرے
ڈروں یاں تلک میں کہ جی غش کرے
توہم کا بیٹھا جو نقش درست
لگی ہونے وسواس سے جان سست
نظر آئی اک شکل مہتاب میں
کمی آئی جس سے خور و خواب میں
اگرچند پرتو سے مہ کے ڈروں
ولیکن نظر اس طرف ہی کروں
ڈروں دیکھ مائل اسے اس طرف
بحدے کہ آجائیں ہونٹوں پہ کف
پڑی فکر جاں میرے احباب کو
اڑا دیویں سب گھر کے اسباب کو
کوئی پاس کوئی تفاوت سے ہو
سراسیمہ کوئی محبت سے ہو
کوئی فرط اندوہ سے گریہ ناک
گریباں کسو کا مرے غم سے چاک
جو دیکھوں تو آنکھوں سے لوہو بہے
نہ دیکھوں تو جی پر قیامت رہے
کہے چشم بندی کو ہر یار و غیر
ولے منزل دل میں اس مہ کی سیر
وہی جلوہ ہر آن کے ساتھ تھا
تصور مری جان کے ساتھ تھا
اگر ہوش میں ہوں وگر بے خبر
وہ صورت رہے میرے پیش نظر
اسے دیکھوں جیدھر کروں میں نگہ
وہی ایک صورت ہزاروں جگہ
نگہ گردش چشم سے فتنہ ساز
مژہ آفت روزگار دراز
عجب رنگ پر سطح رخسار کا
مگر وہ تھا آئینہ گلزار کا
جو آنکھ اس کی بینی سے جاکر لڑے
دم تیغ پر راہ چلنی پڑے
مکاں کنج لب خواہش جان کا
تبسم سبب کاہش جان کا
دہن دیکھ کر کچھ نہ کہیے کہ آہ
سخن کی نکلتی تھی مشکل سے راہ
سزا ہے جگر اس کسو کے لیے
جو سیب ذقن اس کا بوکر جیے
گل تازہ شرمندہ اس رو سے ہو
خجل مشک ناب اس کے گیسو سے ہو
سراپا میں جس جا نظر کیجیے
وہیں عمر اپنی بسر کیجیے
کہیں مہ کا آئینہ در دست ہے
کہیں بادۂ حسن سے مست ہے
کہیں نقش دیوار دیکھا اسے
کہیں گرم رفتار دیکھا اسے
کہیں دلبری اس کو درپیش ہے
کہیں مائل خوبی خویش ہے
کہیں جملہ تن مہر صرف سلوک
کہیں مجھ سے سرگرم حرف سلوک
لطافت سے یک جان ہووے تمیز
سبک سیر مانند عمر عزیز
کہیں جلوہ پرداز وہ عشوہ ساز
کہیں ایستادہ بصد رنگ ناز
ہر اک جاے لے ناز سے وہ سبق
در و بام تصویر کا سا ورق
رہے سامنے اس طرح پر کبھو
رکھے وضع سے پاؤں باہر کبھو
بغل میں کبھو آرمیدہ رہے
کبھو اپنے برخویش چیدہ رہے
کبھو صورت دلکش اپنی دکھائے
کبھو اپنے بالوں میں منھ کو چھپائے
کبھو گرم کینہ کبھو مہرباں
کبھو دوست نکلے کبھو خصم جاں
کبھو یک بہ یک یار ہو جائے وہ
کبھو دست بردار ہو جائے وہ
گلے میں مرے ہاتھ ڈالے کبھو
طرح دشمنی کی نکالے کبھو
کبھو چیں بہ ابرو کبھو ہنس کے بات
کبھو بے وفائی کبھو التفات
جو میں ہاتھ ڈالوں وہاں کچھ نہیں
بجز شکل وہمی عیاں کچھ نہیں
ہر اک رات چندے یہ صورت رہی
اسی شکل وہمی سے صحبت رہی
دم صبح ہو گرم رہ سوے ماہ
کہ درپیش آوے یہ روز سیاہ
کہ جھوما کروں بید مجنوں کی طرز
رہے یاد اس سرو موزوں کی طرز
رہوں زرد میں گاہ بیمار سا
پریشاں سخن گہ پری دار سا
پری خواں کو لا کوئی افسوں پڑھائے
کسو سے کوئی جاکے تعویذ لائے
طبیبوں کو آخر دکھایا مجھے
نہ پینا جو کچھ تھا پلایا مجھے
دوا جو لکھی سو خلاف مزاج
کھنچا اس خرابی سے کار علاج
کہ سررشتہ تدبیر کا گم ہوا
دل اوپر ہجوم توہم ہوا
دروں خودبخود بے حواسی رہی
پریشاں دلی اور اداسی رہی
کروں بے کلی جاؤں تا ہر کہیں
نہ گھر میں لگے جی نہ باہر کہیں
قیامت جنوں کا رہے سر میں شور
کھنچا جائے دل کوہ و صحرا کی اور
رہے شوق سر در گریبان دل
ہوا کھینچے صحرا کو دامان دل
سر آشفتہ زلف گرہ گیر کا
قدم حلقہ در گوش زنجیر کا
جنوں آہ در پے ہوا جان کے
مجوز ہوئے یار زندان کے
کیا بند اک کوٹھری میں مجھے
کہ آتش جنوں کی مگر واں بجھے
لب نان اک بار دینے لگے
دم آب دشوار دینے لگے
کہاں علم کا کسب فرصت نہ آہ
ہوا کا بھی واں گشت روزن کی راہ
نہ آوے کوئی ڈر سے میرے کنے
کہ کیا جانیے کیسی صحبت بنے
وہ آشفتہ سر ہوش مندی سے دور
نہیں رابطہ مقتضاے شعور
وہ حجرہ جو تھا گور سے تنگ تر
در اس کا نہ کھلتا تھا دو دو پہر
جو اس میں کبھو میں سنبھل بیٹھتا
تو باہر بھی اک دم نکل بیٹھتا
سر شام بیٹھا تھا میں ایک روز
افاقت نہ آئی تھی مجھ کو ہنوز
کہ یاروں نے برجستہ تدبیر کی
مرے خون میں کچھ نہ تقصیر کی
اگرچند کہنے کو خوں کم کیا
لیا لوہو اتنا کہ بے دم کیا
بڑی دیر تک خون جاری رہا
میں بے ہوش وہ رات ساری رہا
جگایا سحر مجھ کو اک شور سے
کھلی آنکھ میری بڑے زور سے
وہی دست فصاد میں نیشتر
وہی رنگ صحبت کا پیش نظر
وہی لوہو لینے کا ہنگامہ پھر
وہی تر لہو میں مرا جامہ پھر
لگے نشتر ایسے کہ لگتے نہیں
چبھے جیسے مژگاں کسو کے تئیں
ہوا خون سے دامن و جیب تر
رگ جاں تلک زخم پہنچا مگر
ٹپکتا رہا دیر تک خون ناب
مجھے لے گئی بے خودی کی شراب
سخن ضعف سے سخت دشوار تھا
پلک کا اٹھانا بھی اک بار تھا
کئی روز بالیں پہ یہ سر رہا
خمار ایک مدت تلک پھر رہا
کھڑا ہوں اگر پاؤں لغزاں رہے
بدن بید کی طرح لرزاں رہے
چلا جائے سر پاؤں تھرتھر کرے
نسیم سحر کار صرصر کرے
جفا ضعف سے مجھ کو کیا کیا نہ تھی
افاقت گئی یوں کہ گویا نہ تھی
پس از چند آنکھیں ٹھہرنے لگیں
نگاہیں بھی کچھ کام کرنے لگیں
بندھا ناتوانی کا رخت سفر
کیا طاقت رفتہ نے منھ ادھر
کسے تھا مری زندگانی کا دھیان
ولیکن نہایت تھا میں سخت جان
لگی جان سی آنے اعضا کے بیچ
کوئی روز رہنا تھا دنیا کے بیچ
پھرا ناتواں میں بہت دور سے
کہ نزدیک تھا عالم گور سے
غلط کاری وہم کچھ کم ہوئی
وہ صحبت جو رہتی تھی برہم ہوئی
وہ صورت کا وہم اور دیوانگی
لگی کرنے درپردہ بیگانگی
پس از دیر آنکھوں میں آنے لگی
نہ دو دو پہر منھ لگانے لگی
نہ دیکھے مری اور اس پیار سے
غریبانہ سر مارے دیوار سے
کہیں ٹک تسلی کہیں بے قرار
کہیں شوق سے میرے بے اختیار
کہیں واسطے میرے روتی ہے خون
کہیں دست زیر زنخ ہے ستون
کہیں دل کو اپنے دکھاوے مجھے
مری بے وفائی جتاوے مجھے
کہیں دست بر دل وہ رشک قمر
کہیں حسرت آلودہ مجھ پر نظر
کہیں بے دماغانہ سرگرم ناز
کہیں آتش شوق سے جاں گداز
کہیں چشم گریاں سے دامان پاک
کہیں سو جگہ سے گریبان چاک
کہیں کام دل کی شکایت سے ہے
کہیں نقش دیوار حیرت سے ہے
کہیں مجھ سے کہتی ہے رخصت مجھے
کہ مطلق نہیں غم کی طاقت مجھے
کہیں لب پہ وہ شکوۂ خوں چکاں
کہ ٹپکا کرے جس سے آزار جاں
کہیں وہ نگہ جس سے یہ پایئے
کہ یہ درد دل ہے تو مر جایئے
کہیں وہ روش جس سے نکلے عتاب
کہیں وہ طرح جس سے رہیے خراب
کہیں حرف زن اس طرح ناز سے
کہ دیکھا گیا دل کس انداز سے
کہیں وہ ادا جس سے معلوم ہو
کہ جیسے وہ عاشق کہ محروم ہو
کہیں وہ سخن جو جگر خوں کرے
کہیں طرز ایسی کہ مفتوں کرے
کہیں وضع ایسی کہ بیگانہ ہے
کہیں آشنا ہے تو دیوانہ ہے
کسو جا ہے جلوے میں اس آن سے
کہے تو کہ بیزار ہے جان سے
کسو وقت اس کا یہ اسلوب ہے
کہ شرم محبت سے محجوب ہے
کبھو بے قراری ہے اس رنگ سے
کہ پھرتی ہے سر مارتی سنگ سے
کبھو بے ادائی و دشنام ہے
کبھو باؤ کے ہاتھ پیغام ہے
کہ اے بے وفا آہ دل نرم کر
محبت کے منھ سے بھی کچھ شرم کر
کبھو وہ تبختر کہ پروا نہیں
کبھو کیونکے کہیے کہ سودا نہیں
کبھو یہ سخن جس سے ہو مستفاد
کہ اے بے وفا حرف من یاد باد
کہ ظاہر میں میرؔ اب تو آنا گیا
کہ وہ دوستی کا زمانہ گیا
غرض ناامیدانہ کر اک نگاہ
وہ نقش توہم گیا سوے ماہ
نہ آیا کبھو پھر نظر اس طرح
نہ دیکھا اسے جلوہ گر اس طرح
مگر گاہ سایہ سا مہتاب میں
کبھو وہم سا عالم خواب میں
دل خوپذیر وصال دوام
رہے خواب میں روز و شب صبح و شام
اگر وصل خواب فراموش تھا
ولیکن وہی خواب کا جوش تھا
پلک سے پلک آشنا ہے وہی
زخود رفتگی کی ادا ہے وہی
کھڑا ہوں تو سوتا ہوں اک ذوق میں
رگ خواب دل ہے کف شوق میں
جو بیٹھا ہوں خواب گراں ہے مجھے
وہ غفلت جہاں در جہاں ہے مجھے
خیال اس کا آوے کہ سن ہو رہوں
تلے سر کے پتھر رکھوں سو رہوں
مجھے آپ کو یوں ہی کھوتے گئی
جوانی تمام اپنی سوتے گئی
دکھایا نہ اس مہ نے رو خواب میں
نہ دیکھا پھر اس کو کبھو خواب میں
بہت بے خود و بے خبر ہوچکا
ہم آغوش طالع بہت سوچکا
نہ دیکھا کبھو میرؔ پھر وہ جمال
وہ صحبت تھی گویا کہ خواب و خیال


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.