خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو
خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو
پر جو فریادی ہیں ان کی سن تو لے فریاد تو
دم بدم بھرتے ہیں ہم تیری ہوا خواہی کا دم
کر نہ بد خوؤں کے کہنے سے ہمیں برباد تو
کیا گنہ کیا جرم کیا تقصیر میری کیا خطا
بن گیا جو اس طرح حق میں مرے جلاد تو
قید سے تیری کہاں جائیں گے ہم بے بال و پر
کیوں قفس میں تنگ کرتا ہے ہمیں صیاد تو
دل کو دل سے راہ ہے تو جس طرح سے ہم تجھے
یاد کرتے ہیں کرے یوں ہی ہمیں بھی یاد تو
دل ترا فولاد ہو تو آپ ہو آئینہ وار
صاف یک باری سنے میری اگر روداد تو
شاد و خرم ایک عالم کو کیا اس نے ظفرؔ
پر سبب کیا ہے کہ ہے رنجیدہ و ناشاد تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |