خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا
خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا
گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا
کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر
میں تو اسی خیال میں بیمار ہو گیا
میں نو دمیدہ بال چمن زاد طیر تھا
پر گھر سے اٹھ چلا سو گرفتار ہو گیا
ٹھہرا گیا نہ ہو کے حریف اس کی چشم کا
سینے کو توڑ تیر نگہ پار ہو گیا
ہے اس کے حرف زیر لبی کا سبھوں میں ذکر
کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہو گیا
تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ
وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہو گیا
کیا کہیے آہ عشق میں خوبی نصیب کی
دل دار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا
آٹھوں پہر لگا ہی پھرے ہے تمہارے ساتھ
کچھ ان دنوں میں غیر بہت یار ہو گیا
کب رو ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کو میرؔ
ناکردہ جرم میں تو گنہ گار ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |