خود دیکھ خودی کو او خود آرا

خود دیکھ خودی کو او خود آرا
by قلق میرٹھی
316899خود دیکھ خودی کو او خود آراقلق میرٹھی

خود دیکھ خودی کو او خود آرا
پہچان خدا کو بھی خدا را

ترچھی یہ نگاہ ہے کہ آرا
ہر جزو جگر ہے پارا پارا

دیکھیں گے بتوں کی ہم کجی کو
سیدھا ہے اگر خدا ہمارا

کیوں موت کے آسرے پہ جیتے
اے زیست ہمیں تو تو نے مارا

اللہ رے دل کی بے قراری
کھاتا ہی نہیں کہیں سہارا

جاں دینی ہے میری آزمائش
دل داری ہے امتحاں تمہارا

طوفان ہے جوش تشنہ کامی
دریا بھی تو کر گیا کنارا

شیرینیٔ جاں کی کب کھلی قدر
جب زہر ہوا ہمیں گوارا

ہر شاخ پہ آشیاں ہے لرزاں
اس باغ میں ہو چکا گزارا

گردش کا قلقؔ کی دیکھنا اوج
ہر قطرۂ خوں بنا ستارا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.