خورشید فراق میں تپاں ہے

خورشید فراق میں تپاں ہے
by امداد علی بحر

خورشید فراق میں تپاں ہے
اے ذرہ نواز تو کہاں ہے

کیوں روتے ہیں دیکھ دیکھ کر ہم
یہ زلف سیہ ہے یا دھواں ہے

منہ دیکھ رہا ہوں اور چپ ہوں
کیا بات کروں وہ بد زباں ہے

اب منت باغباں عبث ہے
پت جھڑ کے دن آ گئے خزاں ہے

گلزار نہیں مقام عشرت
بلبل پہ جفائے باغباں ہے

گل کو بھی ہی کچھ غم نہاں نے
غنچے کی چٹک نہیں فغاں ہے

گردوں نے ہی سب کو مار رکھا
جو زندہ بھی ہے وہ نیم جاں ہے

یہ کاہکشاں نہیں سروں پر
کھینچے ہوئے تیغ آسماں ہے

کیا قیس سے ملتفت ہو لیلیٰ
ننگا ہے وہ ننگ خانداں ہے

پروانے سے شمع کیا چھپے گی
میں بھی پوچھوں گا تو جہاں ہے

دیکھا اے بحرؔ تیرا دیوان
اک دفتر حال عاشقاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse