خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے

خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
by اکبر الہ آبادی

خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
مزا تو بے حد آتا ہے مگر ایمان جاتا ہے

بنوں کونسل میں اسپیکر تو رخصت قرأت مصری
کروں کیا ممبری جاتی ہے یا قرآن جاتا ہے

زوال جاہ و دولت میں بس اتنی بات اچھی ہے
کہ دنیا میں بخوبی آدمی پہچان جاتا ہے

نئی تہذیب میں دقت زیادہ تو نہیں ہوتی
مذاہب رہتے ہیں قایم فقط ایمان جاتا ہے

تھئیٹر رات کو اور دن کو یاروں کی یہ اسپیچیں
دہائی لاٹ صاحب کی مرا ایمان جاتا ہے

جہاں دل میں یہ آئی کچھ کہوں وہ چل دیا اٹھ کر
غضب ہے فتنہ ہے ظالم نظر پہچان جاتا ہے

چناں بروند صبر از دل کے قصے یاد آتے ہیں
تڑپ جاتا ہوں یہ سن کر کہ اب ایمان جاتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse