خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا

خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا
by اشرف علی فغاں

خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا
کاروان اشک چلتا ہی رہا

اس کف پا پر ترے رنگ حنا
جن نے دیکھا ہاتھ ملتا ہی رہا

صبح ہوتے بجھ گئے سارے چراغ
داغ دل تا شام جلتا ہی رہا

کب ہوا بیکار پتلا خاک کا
یہ تو سو قالب میں ڈھلتا ہی رہا

بہ ہوئے کب داغ میرے جسم کے
یہ شجر ہر وقت پھلتا ہی رہا

کب تھما آنکھوں سے میری خون دل
جوش کھا کھا کر ابلتا ہی رہا

کیا ہوا مرہم لگانے سے فغاںؔ
زخم دل سینہ میں سلتا ہی رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse