خون کس کس کا ہوا صدقے تری تلوار پر

خون کس کس کا ہوا صدقے تری تلوار پر
by ثاقب لکھنوی

خون کس کس کا ہوا صدقے تری تلوار پر
فصل گل دھبے ہیں لاکھوں دامن گلزار پر

اب رہا دل تا قیامت ابروے خم دار پر
کیا ہٹے گا وہ جو گردن رکھ چکا تلوار پر

فصل گل رخصت ہوئی رو لیجئے گلزار پر
بس یہی دو تین پنکھڑیاں ہیں یا دو چار پر

وصل فرقت کی شبیں دونوں میں نیند آتی نہیں
ہنس رہا ہوں رو رہا ہوں طالع بیدار پر

انتہا پر عشق آ کر ہو گیا ہے عین حسن
موت کی بھی آنکھ پڑتی ہے ترے بیمار پر

وصل سے مایوس ہو کر کام میرا بن گیا
سیکڑوں اقرار صدقے ہو گئے انکار پر

میں نہیں لاکھوں پڑے ہیں مڑ کے پیچھے دیکھیے
نقش پا غش کھا گئے ہیں شوخیٔ رفتار پر

داغ والوں کے نشیمن شب کو بھی چھپتے نہیں
دھوپ سی پھیلی ہوئی ہے باغ کی دیوار پر

گردنیں وہ خم کئے ہیں جن کے سر ہیں بار خوں
تو اگر خودبیں نہیں ڈال اک نظر تلوار پر

اشک ریزان چمن سے خندۂ گل دب گیا
اوس پڑتی ہے نئی ہر شب سر گلزار پر

ایک اک رگ دے رہی ہے لو وفور سوز سے
ناز ہے ثاقبؔ کو اپنے خلعت زر تار پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse