خیال ناوک مژگاں میں بس ہم سر پٹکتے ہیں
خیال ناوک مژگاں میں بس ہم سر پٹکتے ہیں
ہمارے دل میں مدت سے یہ خار غم کھٹکتے ہیں
رخ روشن پہ اس کی گیسوئے شب گوں لٹکتے ہیں
قیامت ہے مسافر راستہ دن کو بھٹکتے ہیں
فغاں کرتی ہے بلبل یاد میں گر گل کے اے گلچیں
صدا اک آہ کی آتی ہے جب غنچے چٹکتے ہیں
رہا کرتا نہیں صیاد ہم کو موسم گل میں
قفس میں دم جو گھبراتا ہے سر دے دے پٹکتے ہیں
اڑا دوں گا رساؔ میں دھجیاں دامان صحرا کی
عبث خار بیاباں میرے دامن سے اٹکتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |