خیمہ ڈالے ہوئے رہرو ہے پڑا ایک سے ایک
خیمہ ڈالے ہوئے رہرو ہے پڑا ایک سے ایک
کس تکلف کی ہے دنیا میں سرا ایک سے ایک
ظلم ہے ایک سے ایک اور جفا ایک سے ایک
جاں ستاں ہے مرے قاتل کی ادا ایک سے ایک
تم اگر پہنو تو جوڑا ہے دھرا ایک سے ایک
ہے ہر اک غنچے کی گٹھری میں قبا ایک سے ایک
ہے جدا سب سے طریقہ ستم آرائی کا
نہیں ملتی مرے ظالم کی جفا ایک سے ایک
کہئے تقویٰ شکن اس کو تو اسے توبہ شکن
دل ربا ہے تری اے شوخ ادا ایک سے ایک
اپنا عکس آئنے میں دیکھ کے وہ کہتے ہیں
واہ کیا خوب یہ نقشہ ہے کھچا ایک سے ایک
تجربہ ہم نے کیا ہے تپ فرقت کے سوا
ہر مرض کی ہے زمانے میں دوا ایک سے ایک
قابلیت بھی تو ہو دیکھنے کی آنکھوں کو
زیر افلاک ہے خورشید لقا ایک سے ایک
واہ کیا صنعت خالق ہے یہ سبحان اللہ
اپنی صورت میں ہر انسان جدا ایک سے ایک
بوالہوس تاب ستم کی جو نہ لایا نہ سہی
سرفروشی کو ہیں سو اہل وفا ایک سے ایک
مل گئے خاک میں سب ان کے پہننے والے
دیکھو اتری ہوئی رکھی ہے قبا ایک سے ایک
منزل تفرقہ سب کہتے ہیں اس دنیا کو
ایک ہی گھر میں ہیں پھر سب ہیں جدا ایک سے ایک
ہاتھ اگر تو نے اٹھایا ہے دعا کرنے کو
مجھ سے سن مانگ تو اے مرد خدا ایک سے ایک
اے مسافر ترا جی چاہے جہاں کر آرام
ایک ہی رات تو بسنا ہے سرا ایک سے ایک
کوئے قاتل میں ہے خونی کفنوں کا مجمع
اینڈتے پھرتے ہیں کیا کیا شہدا ایک سے ایک
حشر کے دن بھی وہی فکر ہے اپنی اپنی
ایسے مجمع میں بھی آ کر نہ ملا ایک سے ایک
للہ الحمد کسی طرح میں قاصر ہی نہیں
لائی مضمون مری فکر رسا ایک سے ایک
باغ عالم میں کسی کو نہ شگفتہ دیکھا
کبھی دل کھول کے غنچہ نہ ہنسا ایک سے ایک
فصل گل آئی تو ہو جائے گا جنگل بھی چمن
بھرے بیٹھے ہوئے ہیں آبلہ پا ایک سے ایک
بزم دنیا بھی مرے دل کا نمونہ ہے کوئی
محفل آرا ہے یہاں ماہ لقا ایک سے ایک
مجھے اس سے تو اسے مجھ سے پہنچتی ہے مدد
صاحب فن یوں ہیں وابستہ رہا ایک سے ایک
زلف معشوق جو برہم ہی رہے تو ہے مزا
نہ ملے اس کا کوئی تار صبا ایک سے ایک
قابل سیر شب ماہ میں پٹنہ کا ہے چوک
اپنے کوٹھوں پہ ہیں سو ماہ لقا ایک سے ایک
کسی مہجور کا کیا خوب ہے اکبرؔ یہ کلام
دل کے وہ حرف ہیں وہ بھی ہیں جدا ایک سے ایک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |