داغ جنوں دماغ پریشاں میں رہ گیا
داغ جنوں دماغ پریشاں میں رہ گیا
دامن میں خار چاک گریباں میں رہ گیا
جب دو قدم جنوں میں مرا ساتھ ہو گیا
پھیلا کے پاؤں قیس بیاباں میں رہ گیا
ابروئے یار سے جو بہت منفعل ہوا
منہ ڈال کر ہلال گریباں میں رہ گیا
تقلید بن پڑی نہ تمہاری خرام کی
طاؤس لڑکھڑا کے گلستاں میں رہ گیا
آئی بہار اور نہ چھوٹا میں اے جنوں
کیسا تڑپ کے خانۂ زنداں میں رہ گیا
تودہ قضا نے ناوک جلاد کا کیا
میں ڈھیر ہو کے گنج شہیداں میں رہ گیا
کیا حادثہ پڑا مرے یوسف پر اے صباؔ
دل گر کے ان کی چاہ زنخداں میں رہ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |