داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |