داغ غم فراق مٹایا نہ جائے گا
داغ غم فراق مٹایا نہ جائے گا
جلتا ہوا چراغ بجھایا نہ جائے گا
انصاف اپنا داور محشر سے ہو تو ہو
قضیہ کسی سے دل کا چکایا نہ جائے گا
روکو نہ چشم شوخ کو میری طرف سے تم
آنکھیں ہیں دل نہیں کہ ملایا نہ جائے گا
ہے دل میں ان کے غیر کی صورت بسی ہوئی
دل میں بھی اب تو ان کو بٹھایا نہ جائے گا
ہے تیری یاد دل میں مرے نقش کالحجر
دل سے ترا خیال مٹایا نہ جائے گا
ساقیؔ ہے تم کو ملنے کی جس گل کی آرزو
اس سے سر مزار بھی آیا نہ جائے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |