دامان کوہ میں جو میں ڈاڑھ مار رویا
دامان کوہ میں جو میں ڈاڑھ مار رویا
اک ابر واں سے اٹھ کر بے اختیار رویا
پڑتا نہ تھا بھروسا عہد وفاے گل پر
مرغ چمن نہ سمجھا میں تو ہزار رویا
ہر گل زمین یاں کی رونے ہی کی جگہ تھی
مانند ابر ہر جا میں زار زار رویا
تھی مصلحت کہ رک کر ہجراں میں جان دیجے
دل کھول کر نہ غم میں میں ایک بار رویا
اک عجز عشق اس کا اسباب صد الم تھا
کل میرؔ سے بہت میں ہو کر دو چار رویا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |