دامن قاتل جو اڑ اڑ کر ہوا دینے لگے
دامن قاتل جو اڑ اڑ کر ہوا دینے لگے
کیا بتاؤں زخم دل کیا کیا دعا دینے لگے
وائے ناکامی کہاں سفاک نے روکا ہے ہاتھ
زخم ہائے شوق جب کچھ کچھ مزا دینے لگے
چارہ سازو مجھ سے رسوا جاں بلب بیمار کو
زہر دینا چاہئے تھا تم دوا دینے لگے
یاس و حرماں آہ سوزاں اشک خوں داغ جنوں
حضرت عشق اور کیا اس کے سوا دینے لگے
آج ہو شاید کسی کو آتش غم کی خبر
شکر ہے اب استخواں بوئے وفا دینے لگے
کیا مخالف ہو گئی ہم سے زمانے کی ہوا
یاسؔ دیکھو حضرت دل بھی دغا دینے لگے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |