دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھا

دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھا
by ناطق لکھنوی
318217دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھاناطق لکھنوی

دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھا
کہ وہ چمن نہ رہا جس میں آشیانہ تھا

بہائے اشک جو اس نے یہ اک بہانہ تھا
کہ خوں بہا کو مرے خاک میں ملانا تھا

بلا سے جان گئی انتظار میں میری
مجھے تو آپ کا اک وعدہ آزمانا تھا

جفائے چرخ ضروری تھی عشق سے پہلے
کہ اپنے دل کا مجھے زور آزمانا تھا

اب انتظار تمہارا میں اور کیا کرتا
ہوئی تھی دیر بہت مجھ کو دور جانا تھا

جہاں ہم آج غریب الدیار ہیں ناطقؔ
اسی دیار میں اپنا غریب خانہ تھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.