درد دل میں کمی نہ ہو جائے
درد دل میں کمی نہ ہو جائے
دوستی دشمنی نہ ہو جائے
تم مری دوستی کا دم نہ بھرو
آسماں مدعی نہ ہو جائے
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے
طالع بد وہاں بھی ساتھ نہ دے
موت بھی زندگی نہ ہو جائے
اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں
عاشقی بندگی نہ ہو جائے
کہیں بیخودؔ تمہاری خودداری
دشمن بے خودی نہ ہو جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |