درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
عرض اتنی ہے کہ اس راز کا چرچا نہ کریں
لاکھ غافل سہی پر ایسے بھی ہم کور نہیں
کہ چمن دیکھ کے ذکر چمن آرا نہ کریں
عقل و دانش سے تو کچھ کام نہ نکلا اپنا
کب تک آخر دل دیوانہ کا کہنا نہ کریں
وہ نگاہیں عجب انداز سے ہیں عشوہ فروش
غم پنہاں کو ہمارے کہیں رسوا نہ کریں
تیرے آشفتہ سر ایسے بھی نہیں سودائی
کہ دل و دیں کے لئے زلف کا سودا نہ کریں
میں نے بیہودہ توقع کی سزا پائی ہے
کچھ خیال آپ مری حسرت دل کا نہ کریں
میرے ارمانوں کو کاش اتنی سمجھ ہو وحشتؔ
کہ ان آنکھوں سے مروت کا تقاضا نہ کریں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |