دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
لے گئے سپیرے واں سے بہت بھر کے باٹ سانپ
ازبسکہ اس کے زہر پہ غالب ہے زہر عشق
مر جاوے ہے وہیں ترے عاشق کو کاٹ سانپ
دریا میں سر کے بال کوئی دھو گیا مگر
لہروں کے ہو رہے ہیں جو یوں بارہ باٹ سانپ
نامرد سے بھلا جٹئی خاک پھر ہوئی
سمجھا جب اپنی بھینس کی رسی کو جاٹ سانپ
تحریک زلف سے تری باد سموم نے
کہتے ہیں دشت و در میں دیے باٹ باٹ سانپ
تھے جس زمیں پہ صندل پا کے ترے نشاں
جیتے ہیں اب وہیں کی ذرا خاک چاٹ سانپ
ساحل پہ اس کی جعد مسلسل کے عکس سے
دریا میں دھوبیوں کو نظر آئے پاٹ سانپ
بنگلے میں جا کے خاک رہے کوئی مصحفیؔ
کر دیں ہیں آدمی کا یہاں جی اچاٹ سانپ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |