دریا طوفان بہہ رہا ہے

دریا طوفان بہہ رہا ہے
by حاتم علی مہر

دریا طوفان بہہ رہا ہے
آنکھوں کا عجیب ماجرا ہے

زاہد کو غرور زہد کا ہے
رندوں کو خدا کا آسرا ہے

ذکر ان کے دہن کا جا بجا ہے
ہے کچھ بھی نہیں یہ بات کیا ہے

دیوار کا ان کی سایہ ٹھہرا
اک یہ بھی سعادت ہما ہے

ہم چشمی اور ان کی انکھڑیوں سے
نرگس تجھے کچھ بھی سوجھتا ہے

پاؤں کے ہمارے گو کھروسی
اک اک کانٹا کھٹک گیا ہے

الفت ہے کھلی ہوئی بتوں سے
اللہ سے مہرؔ کیا چھپا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse