در بیان ہولی

در بیان ہولی
by میر تقی میر
314938در بیان ہولیمیر تقی میر

ہولی کھیلا آصف الدولہ وزیر
رنگ صحبت سے عجب ہیں خرد و پیر
جشن نوروزی اہل ہند سب
ہے یہی تب محو عشرت ہیں گے اب
شیشہ شیشہ رنگ صرف دوستاں
صحن دولت خانہ رشک بوستاں
اس چمن میں باغ پر گل سرخ و زرد
نکہت گل جھاڑیں گے واں آکے گرد
پھول گل آویں نظر دیکھو جدھر
لالہ و صدبرگ سب باغ نظر
دستہ دستہ رنگ میں بھیگے جواں
جیسے گلدستہ تھے جوؤں پر رواں
زعفرانی رنگ سے رنگیں لباس
عطرمالی سے سبھوں میں گل کی باس
رنگ افشانی سے پڑتی ہے پھوہار
رنگ باراں تھا مگر ابر بہار
مرغ گلشن گل رخاں کو جان پھول
بیٹھتے ہیں پاس آکر پھول پھول
قمقمے جو مارتے بھر کر گلال
جس کے لگتا آن کر پھر منھ ہے لال
برگ گل ملواں اڑاتے تھے عبیر
تھی ہوا میں گرد تا چرخ اثیر
روشن الدولہ نے کی تھی روشنی
کب ہوئی تھی لیکن ایسی روشنی
وہ چراغاں گرچہ تھے درگاہ تک
تھے تماشائی گدا و شاہ تک
راہ میں ترپولیے مینار تھے
روشنی کے کوچہ و بازار تھے
گرم کچھ ہنگامہ یہ بھی کم نہ تھا
اس روش کی دھوم کا اودھم نہ تھا
اب تو ہفت اقلیم کا عالم ہے یاں
دیکھو تو ہر جنس کا آدم ہے یاں
ٹٹیاں دریا کے باندھیں دو طرف
کیا چراغاں آسماں کی ہو طرف
تھا جہاں تک آب دریا کا بہاؤ
واں تلک تھا اس چراغاں کا دکھاؤ
ایک عالم دیکھتا تھا دور سے
رات دن تھی روشنی کے نور سے
کوچہ و بازار بام و در بنے
روشنی کے دونوں رستے گھر بنے
سوانگ کیا کیا بن کے آئے درمیاں
پیکھنے کا سوانگ تھا سارا جہاں
آئے کس کس رنگ سے دامن سوار
باد کے رنگوں جنھوں کا تھا گذار
ہاتھی آئے کوہ پیکر کیا بنے
جیسے مدھ ماتے جواں ہوں انمنے
کیسی کیسی دیکھیں شکلیں تازیاں
سحر کرتے تھے کہ صورت بازیاں
ان دیوں کے عکس سے دریا کا آب
آئینے کے سطح کی رکھتا تھا تاب
کشتیوں میں جو دیے بھر کر جلے
پانی میں شعلوں کے ریلے ہی چلے
منعکس تھے جو چراغاں تہ تلک
آب کی وسعت تھی بر نجم فلک
کیا ہوائی چھوٹنے کا ہے بیاں
ذو ذنب جیسے ستارے ہوں عیاں
جاہی جو ہی چھوڑنا ہے یاد بود
روشنان ذو ذوانب تھے نمود
گنج چھوٹے ایک سے روشن تھے جھاڑ
دو طرف جس طرح سے جھڑتی ہے باڑ
اس روش سے تھے ستارے چھوٹتے
ناگہاں جو ہوویں تارے ٹوٹتے
دیکھے جاتے تھے چراغاں آب میں
شعلے تھے لہروں کے پیچ و تاب میں
ہر دو جانب چن گئے ناری انار
گل فشانی سے انھوں کی تھی بہار
ماہتابی اک طرف سے جو دغی
چاند سا نکلا ہوئے حیراں سبھی
آفریں صناع لوگو آفریں
کیا لگایا باغ آکر کاغذیں
گل کتر کر پھول گل ہی کردیے
رنگ تازے کاغذوں میں بھر دیے
متصل توپیں ستاروں کی دغیں
لوگوں کی آنکھیں فلک سے جا لگیں
دیکھیاں کیا کیا نہ شعلہ خیزیاں
تھیں ہوا میں سے ستارہ ریزیاں
نذر کو نواب کی اہل فرنگ
لے کے آتش بازی آئے رنگ رنگ
عرصہ گل ریزی سے گلشن ہوگیا
چرخ ان تاروں سے روشن ہوگیا
داغیاں توپیں ہوائی ایک بار
پھیلے تارے آسماں پر بے شمار
کیا ہوائی باد میں لہرا گئی
تاری سانپوں کے سے من پھیلا گئی
کیا ہی آتش دستیاں دے کر گئے
شعلوں سے پانی کی لہریں بھر گئے
رحمت اے آتش زناں کیا لاگ ہے
تہ بساط آب دریا آگ ہے
لکھ غزل اب میرؔ رنگیں تر کوئی
سن کے ہو محظوظ جس کو ہر کوئی

غزل

لالہ کنار دریا نکلا ہے کیا زمیں سے
اٹھتی نہیں ہیں آنکھیں دیکھو ادھر کہیں سے

بالیدگی سے پہنچے گل آدمی کے سر تک
ہو واں تو رنگ ٹپکے جیب اور آستیں سے

خوش رنگ تر ہے ہر گل رخسار سے پری کے
صدبرگ واں طرف ہے خورشید کی جبیں سے

منھ پر عبیر عاشق اصرار سے ملے ہیں
کب ہاتھ کھینچتے ہیں معشوق کی نہیں سے

صندل بھری جبیں سے کیا صبح چہرہ ہووے
اس قطعۂ چمن کے محبوب خوش نشیں سے

یک سو گلال منھ پر خوباں کے مل رہے ہیں
الجھے ہیں ہاتھ یک سو گیسوے نازنیں سے

جب میرؔ جان دینا بوسے کے بدلے ٹھہرا
تب خوف کیجیے کیا پیشانیوں کی چیں سے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.