در تلک آ کے ٹک آواز سنا جاؤ جی
در تلک آ کے ٹک آواز سنا جاؤ جی
اپنے مشتاق کو اتنا بھی نہ ترساؤ جی
غیر کے ساتھ سے بھاگے ہے مجھے دیکھ تو میں
اس سے کہتا ہوں کہ اس کو تمہی ٹھہراؤ جی
میں جو اک روز بلایا انہیں گھر جاتے دیکھ
پاس آ بیٹھ کے کہنے لگے فرماؤ جی
شانہ کیا زلف پریشاں میں کرو ہو بیٹھے
اپنے الجھے ہوئے بالوں کو تو سلجھاؤ جی
زانوئے غیر پہ شب سر نہ رکھا تھا تم نے
جاؤ جھوٹی نہ مرے سر کی قسم کھاؤ جی
مجھ سے کیا پوچھو ہو کیا جی میں ترے ہے سچ کہہ
ہے جو کچھ جی میں مرے تم ہی سمجھ جاؤ جی
رات اندھیری ہے چلے آؤ مرے گھر چھپ کر
آ کے پھر چاند سا مکھڑا مجھے دکھلاؤ جی
عشق میں ہوتے ہیں میاں مصحفیؔ سو طرح کے غم
گو غم ہجر ہے اتنا بھی نہ گھبراؤ جی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |