در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو
در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو
اپنی بس اب نظر آتی ہے تباہی ہم کو
روز جوں توں کہ ہوا شام تو پھر بہتر عذاب
نظر آئی شب ہجراں کی سیاہی ہم کو
ہم تو جانے کا ارادہ نہیں کرتے لیکن
وہ کمر سوئے عدم کرتی ہے راہی ہم کو
کیوں ترے چاہ زنخداں کا نہ نظارہ کریں
جی سے بھاتا ہے بہت سبزۂ چاہی ہم کو
دام بر دوش ہی مخلوق کیا خالق نے
طاقت اڑنے کی نہ دی جوں پر ماہی ہم کو
پردہ پڑتا جو نہیں اس سے خوش اندامی پر
پیارا لگتا ہے ترا کرتۂ لاہی ہم کو
عمر بھر شعر کہے ہم نے پہ تو نے اے عشق
نہ تو حزنی ہی کیا اور نہ آہی ہم کو
مصحفیؔ علم لغت سے ہے جنہیں آگاہی
جانتے ہیں وہ ابو نصر فراہی ہم کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |