در تہنیت کدخدائی بشن سنگھ

در تہنیت کدخدائی بشن سنگھ
by میر تقی میر
314923در تہنیت کدخدائی بشن سنگھمیر تقی میر

آؤ ساقی کہ بزم عشرت ہے
چشم بد دور خوب صحبت ہے
ازسرنو جواں ہوا ہے جہاں
کدخدائی بشن سنگھ ہے یھاں
فرط شادی سے دل ہے جشن آباد
ہر طرف ہے بہم مبارک باد
باؤ کرتی پھرے ہے پھول نثار
گلشن دہر میں ہے تازہ بہار
آؤ مطرب لیے رباب اور چنگ
کاڑھ منھ سے نواے سیرآہنگ
شادمانی سے ہو نواپرداز
اہل مجلس ہیں گوش بر آواز
یاں سوا دل خوشی کے کام نہیں
چپکے رہنے کا یہ مقام نہیں
آؤ ساقی کہ جمع ہیں احباب
سب مہیا ہیں عیش کے اسباب
لا وہ جوں آفتاب ساغر زر
آب گل رنگ سے لبالب کر
آج جھوما ہے ابر بخشش زور
کچھ نظر ہے تجھے ہوا کی اور
دست راجا ہیں ابر نیسانی
متصل کرتے ہیں درافشانی
کر چمن زار و دشت دلکش سیر
ہیں نہال آج آشنا و غیر
گل نمط دل شگفتہ سب کے کیے
خلعت فاخرہ سبھوں کو دیے
زر و گوہر دیے زبس ساقی
کچھ نہیں بحر و کان میں باقی
لا کہاں ہے وہ لالہ رنگ شراب
جس سے مست گزارہ ہوں احباب
آ مغنی غزل سرائی کر
کچھ مزہ سے بھی آشنائی کر
پڑھ غزل میرؔ کی جو ہووے یاد
اس کو اس فن میں کہتے ہیں استاد

غزل

ساقیا موسم جوانی ہے
گرو بادہ کامرانی ہے

دے پیالہ کہ نقل مجلس عیش
خوب رویاں کی بدزبانی ہے

لاؤ آب کشادہ دل کو گھول
عین الطاف و مہربانی ہے

روے خوباں سے بزم کا ہے فروغ
شمع خجلت سے پانی پانی ہے

رشک گلزار ہے یہ صحبت عیش
شش جہت جوش گل فشانی ہے

آؤ مطرب ہوں زمزمہ پرداز
دے بہار گذشتہ کو آواز
گل و لالہ پہ چشم باز کرے
رنگ صحبت کو دیکھ ناز کرے
چھیڑ ساز طرب نوا کے تئیں
باندھ آواز سے ہوا کے تئیں
وجد میں لاؤ مے پرستوں کو
یاد دے ٹک سرودمستوں کو
آؤ ساقی کہ روشنی ہے خوب
گرم عشرت ہیں ہر طرف محبوب
نار مشعل نے نائرہ کھینچا
نور کو مہ نے دائرہ کھینچا
کثرت روشنی سے شب ہے روز
خشت سیمیں ہے ماہ دل افروز
صبح صادق کے منھ پہ کب ہے فروغ
اس کو دعویٰ جو تھا وہ سب ہے دروغ
اب تو شیشہ شراب لا ساقی
صحبت عیش کو چھکا ساقی
لاؤ رنگ رخ نکویاں کو
مایۂ ناز خوب رویاں کو
چاہیے ہے گلابی مئے ناب
جام ہے چشم روشنی کا باب
اس پری کو نکال شیشہ سے
رنگ مجلس میں ڈال شیشہ سے
لطف کر ٹک وہ دل کی آسائش
تا نظر آوے لطف آرائش
آؤ ساقی کہ ہوں تماشائی
گرم خدمت ہے چرخ مینائی
چل ہوائی سے شعلہ خیزی دیکھ
آسماں کی ستارہ ریزی دیکھ
متصل چھوٹتے جو ہیں گے انار
راہ و رستے ہوئے ہیں باغ و بہار
عشق ہے تازہ کار آتش باز
پھول گل میں ہے رنگ رنگ اعجاز
دیکھ صنعت گری صنعت گر
گل کاغذ ہے غیرت گل تر
دیکھ ساقی تزک سواری کا
چھوڑ آئین بردباری کا
چل گلابی کو ہاتھ میں لے لے
ایک دو جام متصل دے لے
فیل یوں ہیں گے جھومتے جاتے
جیسے آویں جوان مدھ ماتے
نوبتی اپنی اپنی نوبت ہے
صرف کر جو ہنر کی طاقت ہے
دور ہے اب سپہر کا دلخواہ
ہیں وضیع و شریف سب ہمراہ
آ سواری کا ٹک اصول بجاؤ
طبع موزون اہتزاز میں لاؤ
ساتھ راجا سوار ہوتا ہے
شہر باغ و بہار ہوتا ہے
جل زربفت سے ہے فیل و نشاں
آگے مانند کوہ زر کے رواں
زور گوہر نثار کرتے ہیں
خلق کو مایہ دار کرتے ہیں
دیوے راجا تو کیا لیا چاہے
خوشہ خوشہ گہر دیا چاہے
پھینکتے ہیں جو دستہ دستہ گل
رہگذر میں ہیں رستہ رستہ گل
برق پارہ جو جستہ جستہ ہیں
سینکڑوں ویسے بال بستہ ہیں
گردنوں میں پڑیں حمائل گل
ہیں جلو میں بصد شمائل گل
لاؤ ساقی گل گلاب شراب
دے مجھے اب کہیں شتاب شراب
ہے شگفتہ دماغ دل وا ہے
نشہ اس عیش کا دوبالا ہے
رائے صاحب لباس زر در بر
نشۂ عیش و دلکشی در سر
زیر راں ایک اسپ خوش رفتار
گرم رفتن ہو تو ہے برق شعار
خوش سواری و خوش جلو خوش راہ
چھیڑ دیجے تو پھر نہ ٹھہرے نگاہ
کسمسانے میں ران کے اڑ جائے
ہاتھ ہلتے میں جیسے کل مڑ جائے
ہے تو گلگوں بہار کا خوش رنگ
کام ہے اس پہ اس کے حسن سے تنگ
دوردو ہے اگرچہ اسپ خیال
بھول جاتا ہے اس کے آگے چال
ہیں مرصع جو اس کی زین و لگام
چشم کرتی ہے خیرگی ہر گام
باگ اس کی جو ٹک اچک جائے
پارۂ برق سا چمک جائے
دے نہ وہ شیشہ اب جو باقی ہے
حسن ایسا بھی اتفاقی ہے
جب سے ہے اس جہاں کی آبادی
تب سے ایسی نہیں ہوئی شادی
ہو مبارک یہ جشن خوش انجام
دور گردوں بہ کام عیش مدام
آؤ ساقی پڑھیں غزل کوئی
درمیاں اب نہیں خلل کوئی

غزل

موسم ابر ہے سبو بھی ہو
گل ہو گلشن ہو ایک تو بھی ہو

کب تک آئینہ کا یہ حسن قبول
منھ ترا اس طرف کبھو بھی ہو

کس کو بلبل ہے دم کشی کا دماغ
ہو تو گل ہی کی گفتگو بھی ہو

ہے غرض عشق صرف ہے لیکن
شرط ہے یہ کہ جستجو بھی ہو

ہو جو تیرا سا رنگ گل گاہے
ریجھیں ہم تب جب ایسی بو بھی ہو

دل تمناکدہ تو ہے پر یھاں
ہو تو تیری ہی آرزو بھی ہو

سرکشی گل کی خوش نہیں آتی
ناز کرنے کو ویسا رو بھی ہو

پا سکے اس کمر کو دست شوق
جو نمایاں بقدر مو بھی ہو

رو کش میرؔ ہوتے ناشاعر
جب انھیں ویسی آبرو بھی ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.