در حال افغاں پسر

در حال افغاں پسر
by میر تقی میر
314921در حال افغاں پسرمیر تقی میر

چمن سے عنایت کے بادام وار
الٰہی زباں دے مجھے مغزدار
صفت عشق کی تا کروں میں بیاں
رہوں عشق کہنے سے میں تر زباں
عجب عشق ہے مرد کارآمد
جہاں دونوں اس کے ہیں برہم زدہ
جہاں جنگ صف کی یہ ظالم لڑا
صف الٹی جہاں ایک مارا پڑا
اگر لوگ مارے گئے سر بسر
ولے فتح اس کی ہے یہ طرفہ تر
کوئی کشتنی جو طرف ہوگیا
تہ تیغ اس کے تلف گیا
جہاں جس کسو سے اسے چاہ ہے
وہیں اس کے تا قتل ہمراہ ہے
کسو سے اگر ہوگئی لاگ سی
درونے میں اس کے لگی آگ سی
ہوا ملتفت یہ کسو سے کہیں
تو نام و نشاں اس کا پھر داں نہیں
وفاق اس کا نکلا سراسر نفاق
پڑا عاشقوں میں عجب اتفاق
جواں کیسے کیسے موئے عشق میں
بہت گھر خرابے ہوئے عشق میں
بہت عشق میں لوگ روگی ہوئے
بہت خاک مل منہ پہ جوگی ہوئے
گئے دشت میں کچھ نمد مو ہوئے
کچھ اک شہر میں پھر کے یکسو ہوئے
نہ مرغہی ہے نالاں و زار
گئے داغ کہسار سے لالہ وار
کسو کا جگر غم سے خوں ہوگیا
کسو کوہکن کو جنوں ہوگیا
کوئی زار باراں بہت رو چکا
کوئی برق سا جل بجھا ہوچکا
غرض عشق کا ہر طرف شور ہے
نئی روز شہروں میں اک گور ہے
بہت جان ناکام دیتے گئے
تمناے دل ساتھ لیتے گئے
بہت اہل اسلام کافر ہوئے
بہت اول عشق آخر ہوئے
بہت جرم الفت پہ مارے گئے
جوا عشق بازی کا ہارے گئے
ہوئے خانداں کیسے کیسے خراب
جواں جوں جوانی گئے کیا شتاب
کیا عشق جس دن سے مرتے رہے
جیوں ہی کا اندیشہ کرتے رہے
کسے عشق نے جی سے مارا نہیں
یہی درد ہے درد چارہ نہیں
دوا عشق کی سخت نایاب ہے
سر عاشقاں سنگ کا باب ہے
جو ہو عشق عارض تو پھر یاس ہے
عبث کوئی دن جینے کا پاس ہے
محبت ہے نیرنگ ساز عجیب
فسانے ہیں اس کے عجیب و غریب
کوئی عشق کرنا دھرا تھا درے
گئے مے کدے سے بھی صوفی پرے
نہ واں مکرو نے شیدو طامات ہے
خرابات جانا کرامات ہے
کہیں عشق نے آرزو کش کیے
گئے خوش جو عاشق سو ناخوش کیے
کہیں سہل تر یار مرنے لگے
کہیں لوگ دشوار مرنے لگے
کہیں کام ان نے کیے ہیں عجب
فسانہ ہوئی بزم عیش وطرب
کہیں بادشہ اس سے درویش ہیں
کہیں اس سے درویش دل ریش ہیں
لیا کاہ کا کوہ سے کیں کہیں
ملائے کہیں آسماں و زمیں
کہیں پڑگئے اس سے فتنے فساد
رہے زیر شمشیر حد سے زیاد
یہ عالم کا آشوب ہے دہر سے
مراد خطرگہ ہے اس شہر سے
ہوئے عشق میں زہد کیشاں خراب
رہے دل شکستہ پریشاں خراب
اٹھا عشق سے مجلس حال دہر
تواجد لگے کرنے شیخان شہر
کیا عشق میں ترک صوم و صلوٰۃ
گئے اہل مسجد سوے سومنات
مسلماں ہوئے عشق میں برہمن
گئے کعبہ کو چھوڑ دین کہن
نہ سبحہ نہ زنار نے کفر و دیں
جہاں سب ہے عشق اور کچھ بھی نہیں
محبت کے ساغرکش اہل صلاح
یہ بے ہوش دارو ہے ان کی فلاح
کوئی ہوش میں اپنے رہتا نہیں
ہر اک چپ ہے کچھ کوئی کہتا نہیں
رباطی ہیں خانہ سیہ عشق میں
مصلے ہوئے ان کے تہ عشق میں
ہمہ خاندان تفاوت خراب
خرابے سے ہیں بے تفاوت خراب
یہی عشق جس کے کہ حاصل ہے کام
یہی عشق ہے جس سے نکلا ہے نام
اسی عشق جس سے کہ حاصل ہے کام
یہی عشق ہے جس سے نکلا ہے نام
اسی عشق ہے عقدۂ دل ہے یہ
یہی عشق حلال مشکل ہے یہ
کہیں اس کو لڑنے سے پایا معاف
کہیں ان نے میدان مارے ہیں صاف
کہیں مومنانہ اسے درد دیں
کہیں کافرانہ ہوا بے یقیں
غرض عشق ہے طرفہ نیرنگ ساز
کہیں ناز یکسر کہیں ہے نیاز


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.