در حال عشق

در حال عشق
by میر تقی میر
314920در حال عشقمیر تقی میر

ہے غبار وادی وحدت جہاں
کثرت اعیان ہوگی اب عیاں
پرفشاں تھا ٹک جو طاؤس قدم
آسماں پر آسماں پہنچے بہم
عشق اپنا آپ ہی شیدا ہوا
تھا جو پنہاں پردے میں پیدا ہوا
نظم کل کا ڈول ڈالا عشق نے
انس سے انساں نکالا عشق نے
وہ حقیقت سب میں یاں ساری ہوئی
ہے گی ہر شے عشق کی ماری ہوئی
چار سو ہنگامہ آرا عشق ہے
عشق کیا کہیے کہ کیا کیا عشق ہے
عشق ہی کا ہے جہاں میں سب ظہور
نور و ظلمت ہو کہ ہو ظل و حرور
عشق گل ہے عشق بلبل عشق بو
عشق ہے سرو چمن عشق آبجو
ہے کہیں بندہ کہیں ہے یہ خدا
عشق کی ہے ہر جگہ شان جدا
عشق ہر کشور میں لاتا ہے کتاب
عشق کے لوگوں سے ہیں کیا کیا خطاب
یاں سے پیغمبر ہے لایا عشق کا
عشق کو پیغام آیا عشق کا
مسجد و منبر کیے تازہ بنا
واں امام پاک خود آکر بنا
عشق کے آغاز دیکھے رنگ رنگ
موم وے دل ہوگئے جو دل تھے سنگ
سنگ سے پھر لعل نکلا بے بہا
یعنی وہ دل جملگی خوں ہوگیا
کچھ بہا یاقوت سیلانی ہوا
بستہ قطرہ لعل رمانی ہوا
عاشق و معشوق رفتہ عشق کے
یعنی دونوں سینہ تفتہ عشق کے
بھڑکی آتش عشق کی دونوں جلے
ڈوبے دریا میں ہوں گو پانی تلے
یا جلایا ایک ہندستاں کے طور
جا جلے ہے زن بھی اس بے جاں کے طور
جل چکے کو ہندی کہتے ہیں ستی
ست بمعنی استقامت واقعی
آگ میں جا بیٹھے زن کا ظرف کیا
عشق ہی کا جاذبہ دے ہے جلا
گرمی ہنگامہ اس کا قہر ہے
پھونک دیوے گر دیار و شہر ہے
عشق پردہ در نہ ہو رسوا کرے
پھر تماشا ہے جو کچھ پردہ کرے
عشق کو ہے خون کرنے کا مزہ
مار ہی رکھتا ہے اپنے ڈھب چڑھا
مارگیری اس کی سیکھے اژدہے
عشق نے معشوق و عاشق چٹ کیے
عشق و دل میں ہے قدیمی دشمنی
عشق سے ہے دل گدازی جاں کنی
عشق کا پا درمیاں آیا جہاں
دل ٹھہرتا واں نہیں ہرگز نہ جاں
عشق دشمن ہے بلاے جان و دل
عشق ہے ہم دل شکن ہم جاں گسل
ہے سلوک عشق کا مارا جہاں
خاک میں ان نے ملایا آسماں
کون راہ عشق کو کرتا ہے سر
ہر طرف ہے جان کو اس میں خطر
عشق زورآور سے سب ہیں ترس ناک
کشتی اس کی ہوگئی عالم سے پاک
عشق کا ہے بادیہ مشکل گذر
دیکھے اودھر مر ہی جاتے ہیں نمر
روبہ اس جنگل میں ہے شیر دلیر
وہ کوئی واں جائے جو ہو جی سے سیر
دژ کہ ہاتھی کم کرے ہے کوئی میل
بچ کے نکلے ہے ادھر سے تند سیل
بالا بالا دیوقد گینڈا گیا
اینڈا اینڈا راہ واں اس پر چلا
یوز ہیں گے فکر ترک گشت میں
کب گیا کفتار ایسے دشت میں
عشق کے جنگل میں ہیبت سے طیور
پرفشاں ہوتے نہیں ہیں دور دور
قو نہیں پر مارتا ازبس ہراس
کب اڑا سیمرغ اس کے آس پاس
کیا درندہ کیا چرندے کیا پرند
دل ہے جن کے عشق ہے ان کا کشند
آدمی سے خاص اس کو لاگ ہے
بہر انساں عشق کی تیز آگ ہے
دل بڑا ہے اس کا ہر کار کلاں
یک بیک کرنا قبول اس کو بجاں
ہمت عاشق جو ہے ازبس بلند
کار باطل ہی ہیں اس کے حق پسند


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.