در حال مسافر جواں

در حال مسافر جواں
by میر تقی میر
314919در حال مسافر جواںمیر تقی میر

خدا ایک فرقے میں مانا ہے عشق
کہ نظم کل ان سب نے جانا ہے عشق
نہ ہو عشق تو انس باہم نہ ہو
نہ ہو درمیاں یہ تو عالم نہ ہو
یہ آفت زمانے کی معروف ہے
زمانے میں جو ہے سو ماؤف ہے
نہیں اس سے خالی جہاں میں بشر
سبھوں میں ہے ساری یہی فتنہ گر
کہیں داغ ہوکر جگر پر جلا
کہیں زخم سینہ ہوا برملا
مزہ ہے یہ عاشق جہاں ہوگیا
عزا ہے جو ان دونوں پر رو گیا
کسو دل میں جاکر ہوا درد یہ
کسو چہرے کو کر گیا زرد یہ
کسو کے لیے ہے بیاباں نورد
کسو کی رہ دور کا ہے یہ گرد
کسو جان میں ہے تمناے وصل
کسو دل سے اٹھا مہیاے فصل
کہیں سبزے میں چشمک گل ہوا
کہیں نالۂ زار بلبل ہوا
کہیں سرو برچیدہ دامن ہے یہ
کہیں قمری کا طوق گردن ہے یہ
کہیں پھول لالے کا ہے داغ دار
کہیں اس سے ہے مضطرب لالہ زار
کہیں عشق و عاشق ہے معشوق ہے
کہیں خالق و خلق مخلوق ہے
یہی عشق خلوت میں وحدت کے ہے
یہی عشق پردے میں کثرت کے ہے
عجب عشق یہ شعبدہ باز ہے
موافق گہے گاہ ناساز ہے
غرض طرفہ ہنگامہ آرا ہے عشق
تماشائی عشق و تماشا ہے عشق
مساعد نہ تھا ایک سے روزگار
کیا ان نے ترک وطن اختیار
پریشانی لائی کہیں سے کہیں
بجز بیکسی ساتھ کوئی نہیں
سرا ایک تھی شہر کے درمیاں
فرود آیا واں یہ مسافرجواں
ہوا آب گردش سے بیمار یہ
رہا اس سبب کوئی دن اس جگہ
کھنچا طول کو رفتہ رفتہ مرض
دواے طبیباں سے آئے عرض
مراعات اسباب کی چند روز
دوا سے بڑھا اور کچھ دل کا سوز
کیا ترک نومید ہوکر علاج
کہا لوگوں سے خوش ہے میرا مزاج
مجھے حال ہی پر مرے چھوڑ دو
نہ لکھ پڑھ کے دل کو مرے توڑ دو
دوا چھوڑی غیرت سے وحشت ہوئی
جنوں کرنے کی اس پہ تہمت ہوئی
خیال اس کا لوگوں نے چھوڑا ندان
تعرض نہ کرتے تھے دیوانہ جان
پھرا کرتا تھا ایدھر اودھر خموش
نہ کچھ دل میں طاقت نہ کچھ سر میں ہوش
شب و روز اپنے بسر یوں کرے
معیشت زمانے میں جوں توں کرے
یکایک ہوا قافلہ اک نمود
قریب اس کے حجروں میں آیا فرود
تھی ساتھ اس کے اک دختر بے مثال
گلستان خوبی کی تازہ نہال
پری شرم گیں اس کے رخسار سے
غشی حور کو اس کی رفتار سے
قیامت ادا فتنہ در سر تھی وہ
عجب طرح کی آہ دلبر تھی وہ
نکلتی نہ پلکوں سے کم راہ تھی
نگہ لیک تا قتل ہمراہ تھی
نظرگاہ کا جوکہ مفتون ہو
گریباں کرے چاک مجنون ہو
قنات آگے حجروں کے لی کھینچ سب
لگی رہنے وہ رشک مہ روز و شب
پدر مادر اس کے نہ تھے درمیاں
قبیلے کے کچھ لوگ لائے تھے یاں
کہ شادی کہیں اس کی کر دیجیے
گئے لوگوں کا چندے غم کیجیے
سو نسبت ہوئی ہے کسی سے درست
اہم کتخدائی ہے اس کی نخست
عروس اور داماد بعد از فراغ
وطن ان کو لے جائیں گے خوش دماغ
معونت کو دونوں کے ملک و معاش
کفایت ہے بے کوشش و بے تلاش
مسافر ہوا اس پری سے دوچار
ہوا اس پہ سو جان و دل سے نثار
پری دار سا آنے جانے لگا
جنوں کرتے شور اک اٹھانے لگا
کبھی بات کرتے جو اس کو سنا
بڑی دیر تک ان نے سر کو دھنا
کبھی چلتے پھرتے جو آئی نظر
روش سے ہوئی اس کی حسرت دگر
بہت نازک اندام و شیریں کلام
قد و قامت اس کا قیامت تمام
نگہ دل زدے کو مسل ڈالتی
طرح سے جگر جان مل ڈالتی
ادا اک غضب ناز اک قہر تھا
کرشمہ خرابی کن شہر تھا
سخن عشوہ غمزے سے کیا کوئی کرے
کہ آنکھ اس کی اک پل پڑے تو مرے
بلا زیر سر فتنہ گر ناز تھا
چمک برق خاطف کی انداز تھا
مژہ اس کے برگشتہ جی میں کھبے
نگہ اس کی سرتیز دل میں چبے
کشیدہ بھویں دو کمانیں تھیں پاک
جھکیں جب حریفاں بہت ہوں ہلاک
صفا سے وہ رخسار آئینہ وار
دکھائی دے منھ ان میں ہوتے دوچار
دہن غنچہ لب اس کے گل برگ تر
دل آویز گیسو و عنبر نظر
گل اندام گل پیرہن گل بدن
دل آرام و دلچسپ دلکش سخن
سراپا سے اس کے یہ حیرت رہے
کھڑی اس کی ہر جاے صورت رہے
مسافر بھی حیران رفتار تھا
بکا جاتا تھا جو خریدار تھا
لپک کر جو چلتی دل آویز تھی
کفک پاؤں کی کیا بلاخیز تھی
اس آفت نے اک روز مہندی لگا
سر پا سے فتنے ہزاروں جگا
دیے چھاپ شوخی سے دیوار و در
رہا نازک ان انگلیوں کا اثر
اٹھے نقش پنجوں کے اس ڈھنگ سے
کہ چھاپے کے گل کب ہوں اس رنگ سے
جو نقاش وہ نقش کرتا نظر
تو رہ جاتا ہاتھوں کو بھی کھینچ کر
کئی دن میں شادی قریب آ رہی
سرا میں سے اٹھ شہر میں جا رہی
یہ افسانہ یھاں کا یہیں رہ گیا
مسافر سے عشق اس کا کیا کہہ گیا
پریشاں دلی اس کی اس حد ہوئی
کہ طبع خوش اس سے بہت بد ہوئی
پھرے تو پھرے جیسے آفت زدہ
رہے تو رہے جیسے محنت زدہ
چلے تو پریشاں پری دار سا
گرے فرش پر سست بیمار سا
جو سونے کو ہو تو کہاں اس کو خواب
پری یاد آوے ہوں آنکھیں پرآب
نہ سایہ خوش آوے نہ دھوپ اس کو بھائے
جہاں جائے وحشت لیے ساتھ جائے
کبھو جیسے دیوانہ رووے ہنسے
کبھو شہر سے دشت میں جا بسے
کھڑا ہے کہیں ہو پریشان سا
کہیں دیکھتا ہے تو حیران سا
کسی سے کرے بات تو دل کہیں
نہ ہرگز کہے دل کی مشکل کہیں
جو آنکھیں تھیں اس کی نظر میں سو تھیں
جو پلکیں چبھی تھیں جگر میں سو تھیں
شب و روز اس کو یہی تھا خیال
کہ کیا خوب صورت ہیں کیا لمبے بال
کہوں خوبی کب تک کہ ہر جا سے خوب
تکلف نہیں کچھ سراپا سے خوب
قیامت ہے اس کی کمر کی لچک
سرکتی تھی دھچکے سے سر کی لچک
نظر سیمیں ساعد پہ کیا جا پڑے
کہ بجلی سی ایدھر چمک آ پڑے
کف دست سینے پہ رکھے نہاں
تو راحت اٹھاوے گی صد رنگ جاں
قیامت کا ٹکڑا تھا وہ قد راست
یہ حرف و سخن ہیں مرے راست راست
خرام اس کا دل ہاتھ سے لے گیا
کلام اس کا مردوں کو جی دے گیا
سخن کرنے لگتی وہ محبوب جب
تو دلکش قیامت تھی تحریک لب
اگر ہنستی آئے ہے وہ کامنی
تو یوں دانت چمکے ہیں جوں دامنی
نہال قد اس کا تھا گلبن مثال
کف پا تھے گلبرگ پاے نہال
سرا میں مسافر جو شب آرہا
وہیں مہترانی نے جاکر کہا
کہ اے نوسفر عشق کی راہ کے
جدائی کش اس غیرت ماہ کے
تو اس حجرے میں جو رہا چند ماہ
سو گلخن سا ہے حال حجرہ تباہ
نہ لیپا گیا ہے نہ جھاڑا گیا
خرابہ سا ہے وہ اکھاڑا گیا
ہوا مزبلہ سا خس و خار سے
کہ صحبت رہی تجھ سے بیمار سے
تو اس حجرے میں چار دن جاکے رہ
رہی تھی جہاں آکے وہ رشک مہ
کروں سیم کل جھاڑ خاشاک و خاک
یہ گھر بھی ہو پرنور و صاف اور پاک
پھر آرہیو اس میں ترا ہے مکاں
کوئی کھینچ کر لے گیا اس کی جاں
مسافر اسی گھر میں اٹھ جا رہا
سکونت کو ان نے جہاں تھا کہا
منقش نظر آئے دیوار و در
حنائی انھیں پنجوں کا تھا اثر
نشاں اس کے ہاتھوں کا دل لے گیا
ہر اک نقش صدرنگ غم دے گیا
کہیں حیرتی نقش دیوار سا
کہیں عشق سے سست بیمار سا
اکیلا جو اس حجرے میں پا گیا
غم عشق اسے زندہ ہی کھا گیا
اٹھا اونٹ کر خوں ز جوش جنوں
یہ ہوتا چلا زرد و زار و زبوں
ہوا فرش خواب اس کا فرش مرض
کہ تھی عشق کو مرگ اس کی غرض
بڑھی ناتوانی نہ طاقت رہی
نہ اک بات کرنے کی فرصت رہی
کئی دن رہا بس طلب چشم وا
وہیں شوق کش جی عدم کو گیا
مسافر سرا سے نہ واں اٹھ گیا
یہ جی اس سرا ہی میں اس کا اٹھا
گیا چھوڑ پایاں سرا نوسفر
لیے ساتھ ہجراں میں داغ جگر
نہ وارث تھا کوئی کہ اس کو اٹھائے
رکھے نعش کاندھے پہ تا گور جائے
کچھ اس مہترانی نے تزئین کی
مروت سے تجہیز و تکفین کی
جنازہ نکالا بڑی شان سے
نماز اس کی کی سو مسلمان سے
کیا اس سرا ہی میں مدفوں اسے
کیا تھا محبت نے مجنوں اسے
سیوم کرکے اس کا نہ ماتم کیا
تمام اس سفرکردہ کا غم کیا
نہ وارث تھا کوئی جو لے تعزیہ
کیا کچھ تو للہ سب نے کیا
سنا جب کہ یہ واقعہ ہوچکا
تو شادی سے وہ جمع فارغ ہوا
زن و شو وطن کے تئیں جائیں گے
کوئی روز رہ کر یہاں آئیں گے
سرا کے ہے سب لوگوں کو انتظار
کہ کب آوے گی رشک باغ و بہار
سرا اس کے رہنے سے گلزار تھی
کرم خصلت و لطف کردار تھی
کہا شو نے منزل کریں گے جہاں
کوئی دن رہیں گے ضرورت کو وھاں
پھر اس میں سرا ہو مکاں ہو کوئی
بیاباں ہو یا گلستاں ہو کوئی
ہمیں اس سرا میں نہ جانا ہے خوب
جہاں سے اٹھے پر نہ آنا ہے خوب
مبارک نہیں رجعت قہقریٰ
خدا جانے پیش آوے ہم سب کو کیا
زن اصرار کر اس ہی جا میں گئی
کشش عشق کی لے سرا میں گئی
اترتے دگرگوں ہوا حال دل
وہی کوٹھری میں تھی پتھر کی سل
کھنچا عشق کے جذب سے یہ تعب
کہ مطلق نہ ملتے تھے وہ لعل لب
وہ آنکھیں کہ تھیں رشک چشم غزال
ٹھٹھک رہ گئیں آئینے کی مثال
وہ گوندھے ہوئے بال الجھے کیے
پریشاں ہوئے پھر نہ سلجھے کیے
گل سرخ رخسار مرجھا چلے
شکن کھا بہار اس کی لٹوا چلے
گیا طائر رنگ پرواز کر
ملامت رہی عشق کی سازگر
لگی رونے آزردہ ہو زار زار
گیا جذب الفت سے صبر و قرار
جگر چھن گیا عشق سے سو طرف
ندان ایسی آفت میں ہوگئی تلف
طرح اس کی جینے کی سی اب نہیں
کوئی دم نہیں دل کی تسکیں کہیں
وہی مضطرب ہے وہی بے حواس
وہی جذب سے عشق کے ہے اداس
سفرکردہ کا حال پرساں ہوئی
بہت سی بہت دل پریشاں ہوئی
کہا سو کہا مہترانی سے یہ
کہ وہ یھاں جو رہتا تھا کیدھر ہے کہہ
خیال اس کا جاں سے مجھے لے گیا
مسافر عجب داغ اک دے گیا
سرا میں فرود آئی میں کس گھڑی
مسافر کی صورت تھی آکے کھڑی
جہاں دیکھتی ہوں پلک میں اٹھا
اسی کی ہے ترکیب جلوہ نما
ادھر دیکھے ہے ایک حسرت کے ساتھ
کھڑا ہے خموش ایک حیرت کے ساتھ
جدھر جاؤں وہ بھی چلا جاوے ہے
مرے ساتھ پرچھائیں سا جاوے ہے
جگر جان و دل میں نہیں رہتی تاب
نہ ہے چین دن کو نہ ہے شب کو خواب
جو میں جانتی اس سرا کے یہ ڈھنگ
تو کیوں آ اترتی مسافر کے رنگ
نہ جا سکتی ہوں اب نہ رہ سکتی ہوں
پشیمانی سے کچھ نہ کہہ سکتی ہوں
مگر شو سے مجھ کو ندامت ہوئی
مری جان پر یھاں قیامت ہوئی
کیا عشق سو دنگ ہوں میں بہت
کہ اس جینے سے تنگ ہوں میں بہت
نشاں دے ترے پاس رہتا تھا وہ
سدا درد دل تجھ سے کہتا تھا وہ
گیا یھاں سے اٹھ کر تو کیدھر گیا
کہیں جا کے جیتا ہے یا مر گیا
کہا مہترانی نے بے تاب دیکھ
کہ قربان میں اب نہ یہ خواب دیکھ
مسافر سرا میں رہا مر گیا
جدا تجھ سے کام اپنا وہ کر گیا
کیا تیری فرقت نے اس کو ہلاک
ہوا میرے ہاتھوں سے وہ زیر خاک
تو ضائع نہ کر آپ کو صبر کر
غم و غصے سے جی پہ مت جبر کر
سن اس واقعے کو بہت غم کیا
عزا میں بہت حال درہم کیا
کہا حیف صد حیف بیکس موا
گڑھاگور پھر یوں میسر ہوا
چپ اب عشق کا راز رسوا نہ ہو
خدا جانے ظاہر جو کیا کیا نہ ہو
ترے چپکے رہنے سے ممنون ہوں
میں اس منت احساں کی مرہون ہوں
مبادا سنے شوے ناساز کچھ
لگاویں اسے اور غماز کچھ
سن اس زشت کاری کو ناچار ہو
مجھے ذبح کرنے کو تیار ہو
شفاعت سے کوئی نہ پھر پیش آئے
عبث جان پرآرزو میری جائے
شتاب اس کی تربت پہ لے چل مجھے
کشش اس کی رکھتی ہے بے کل مجھے
مخاطب چلی لے کے غافل اسے
کہ جاذب ہے وہ جذب کامل اسے
کمیں میں ہے مالوف کش اشتیاق
ہوئی زندگی مردہ ساں اس کو شاق
جنازے پہ آئی نہ تھی وہ پری
ہوئی گور پر اس کی جلوہ گری
برابر گئے شق ہوئی اس کی قبر
گیا اس کے دل سے سکوں اور صبر
شتابی گئی ساتھ والی کو چھوڑ
لیا مردہ عاشق نے گویا مروڑ
کھنچی جو گئی گرد اس گور سے
مسافر بھی آیا بہت دور سے
بغل گیر عاشق ہوئی زیر خاک
ہوئی ہمکناری میں آخر ہلاک
زمیں مل گئی جب یہ آخر ہوئی
مسافر سے مل کر مسافر ہوئی
گیا ہوش اس کا جو ہمراہ تھی
زباں پر فغاں تھی بلب آہ تھی
اچنبھا سا یہ سانحہ ہوگیا
عجب طور کا واقعہ ہوگیا
حواس اڑ گئے اس کے جن نے سنا
ٹھٹھک ہی گیا دیر تک سر دھنا
سرا میں گئی شور سے غم کیا
بہت حال کو اپنے درہم کیا
خبر شوے ناساز کو بھی ہوئی
کہ وہ نازنیں جا سرا میں موئی
گریباں دراں خاک افشاں گیا
لب گور خاطرپریشاں گیا
کہا گور کھولیں پھر اب بیلدار
کہ بن آنکھوں دیکھے نہیں ہے قرار
کھلی گور دیکھا تو چسپاں تھی وہ
گلے لگ رہی تھی پہ بے جاں تھی وہ
جدا کرتے مشکل جدا وہ ہوئی
کمال اشتیاق اس کو تھا جو موئی
نئی گور کر دفن اس دم کیا
نہ غیرت سے شوہر نے ماتم کیا
بنا ایک روضہ پئے صالحہ
موافق کیا رسم کے فاتحہ
گیا شو گیا شہر سے بھی گیا
کہ ہمسر کے یوں مرنے کے تھا جیا
یہ ہے میرؔ وہ عشق خانہ خراب
کہ جی جن نے مارے ہیں یھاں بے حساب
محابا کسو کا اسے کچھ نہیں
رہا بے محابا سدا ہر کہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.