در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ (III)
جب سے خورشید ہوا ہے چمن افروز حمل
رنگ گل جھمکے ہے ہر پات ہرے کے اوجھل
وقت وہ ہے کہ زبس شوق سے چشم بلبل
خوبی دلکش گل دیکھنے کو ہو احول
جوش گل یہ ہے جہاں تک کرے ہے کام نظر
لالہ و نرگس و گل سے ہیں بھرے دشت و جبل
لطف روئیدگی مت پوچھ کہ میں شبہے میں ہوں
سبزہ غلطاں ہے لب جو پہ کہ خواب مخمل
چشم رکھتا ہے تو چل فیض ہوا کو ٹک دیکھ
نرگس اگتی ہے جہاں بوئی تھی دہقاں نے بصل
سیر کر تازگی و خرمی و شادابی
خشک بھی شاخ نے اب سبز نکالی کوپل
خون خمیازہ کش عاشقی و پنجۂ گل
دونوں نکلے ہیں تہ خاک سے اب دست و بغل
برگ گل فیض ہوا کرتا ہے ہر اخگر کو
آگ کی گر کہیں سلگا کے رکھے ہیں منقل
بیت بحثی کے تئیں مرغ چمن آئے ہزار
کسو گلبن کے تلے آپ بھی اب پڑھیے غزل
غزل (مطلع ثانی)
نکلے ہے لالہ زبس چاک کر اب سینۂ تل
آتش گل سے جلا کرتا ہے سارا جنگل
تیرگی اپنے ستارے کی ہے سب پر روشن
آفتاب آوے ہے یاں دن کو جلاکر مشعل
آمد گریہ قیامت ہے اگن میں جی کی
مارے ڈالے ہے یہ برسات ہماری کی کہل
غنچۂ خام کو جوں پھونک سے کھولے ہے طفل
یوں بھی کر دیکھا پہ دل عقدہ ہے مالاینحل
تو یونہی کھینچے ہے یہ نقش برآب اے منعم
کیسی محبوب گئیں صورتیں اس خاک میں رل
جنس دل مفت ہے سینے میں عجب کیا ہے جولے
غمزے وے دزد ہیں آنکھوں سے چرا لیں کاجل
شیخ کے قد کی درازی کے تئیں حال میں دیکھ
یاد آتا ہے جوانوں کے تئیں رقص جمل
کودنے کو جو اٹھا سر پہ اٹھالی مجلس
دیکھیے بیٹھے جو پھر اونٹ تو بیٹھے کس کل
پردے میں دوستی کے میرؔ کا جی تک تو لیا
مدعی کتنے تھے اس کے یہ محبت بیتل
کیا ہیں اندھیر فلک کے کہ نہیں ملتی داد
روز خورشید نکلتا ہے جلاکر مشعل
جو ہے سو دست بہ دل خاک بسر ہے اس سے
میں بھی نکلوں ہوں سدا منھ پہ کف خاک کو مل
موے سر تک تو عدو دیدۂ شور اس کا ہے
آج دیکھے کسو سر پر تو اسے چاہے کل
پنجۂ خور کو زراندود کیا ان نے جسے
مرتعش باندھے ہیں اکثر شعرا بعضے شل
سرخ رہتی ہے مژہ خط شعاعی سی ہنوز
چشم خورشید سے کھوئی نہ کبھو ان نے سبل
درد سر میں ہے جو موجود ہے دور اس کے میں
صبح نکلے ہے سدا ماتھے کو مل کر صندل
وقت ہے اپنے نصیری کی مدد کا یا شاہ
روز و شب رہتی ہے اس موذی ہی سے جنگ و جدل
مطلع ثالث
اے کہ اک تو ہی ہوا عالم اسرار ازل
اے کہ سو جان سے عاشق ہے ترا حسن عمل
تیری وہ ذات مقدس ہے کہ لیتے ہوئے نام
منھ سے ناخواستہ بھی صل علیٰ جائے نکل
تیری درگاہ میں جبریل کے پر کیوں نہ جلیں
یہیں ہے نور جلالی خدا عزوجل
دور ازبس کہ کھنچا عرش سے رتبہ تیرا
حرف تیرا ہے ترے شیعوں کو وحی منزل
مرحبا شاہی تری صل علیٰ جاہ ترا
کہ ہوا تخت ترا دوش نبی مرسلؐ
فرش ہونا ترے زائر کا سعادت تھی ولے
کیا کرے چادر مہتاب کہ تھی مستعمل
وہ نخستیں خرد اے عالم اسرار الٰہ
مانتے جس کو گئے دہر کے کامل اکمل
آخر اب آکے ترے درس میں نکتہ یہ کھلا
ناقص محض چلا جائے تھا عقل اول
جی میں گذرے بھی تو نکلے ہے ترے درس کے بیچ
معنی تازہ سے بدلا ہوا لفظ مہمل
رفع بدعت پہ جب آوے تری طبع اقدس
کیا عجب شعلۂ آواز سے جل جا نرسل
لقمۂ ظلم نہیں پچتا عدالت میں تری
باز نگلی ہوئی چڑیا کے تئیں دے ہے اگل
حالت نزع میں گر نام زباں پر ہو ترا
یک رمق جان حیات ابدی سے ہو بدل
بس کہ غالب ہے ترا سعد ستارہ ہے عجب
پہنچے گر حشر تلک نوبت شاہی زحل
کیا ترے کشف بیاں کرنے کی کہیے تاثیر
طبع گوئندہ پہ یاں حال ہوا مستقبل
تو غضب ہوئے مبادا کسو اوپر کہ شہا
مرگ ٹلتی بھی ہے پر ٹلتی نہیں یہ کلول
تب ہوا دین محمدؐ کا بہ زور شمشیر
تونے برہم کیے جب کتنے ہی ادیان و ملل
حبذا حق سے یہ نسبت کہ رہی بھی موقوف
تجھی پر مصلحت کار خداوند اجل
سن کے یہ نظم و نسق دہر میں جو تونے کیا
جمع ہوجاتے ہیں شاعر کے حواس مختل
کوئی یوں سرکشی سے اپنی کہے کچھ لیکن
سجدہ ہی کیجے تجھے یہ ہے ترا قدر و محل
جی میں ہے اور بھی مطلع کے تئیں کریے نمود
دل کو تسکین نہیں بخشتا وصف مجمل
مطلع رابع
اے کہ طاقت ہے زمانے میں تری ضرب مثل
پنجۂ زور کے آگے ترے یہ چرخ نبل
یک طرف میں نے کیا فرض ترے بندے کو
دوسری سمت کیا جمع عدو کا دنگل
کشتنی مدعی کی اور کی میں کیسے کہوں
ہر جواں برج سا پھر کوہ کے مانند اچل
میان سے جب کہ گھسیٹی ادھر ان نے تلوار
باعث تیرگی چشم تھی وہ برق اچپل
درہمی آگئی یک بار صف اعدا میں
ایک دو ہاتھ کے چلنے میں پڑی یہ ہلچل
تیرگی بخش جہاں بس کہ ہوا سرمۂ گرد
چشم خورشید فلک پر تھی مثال مکحل
رستم و سام جسے فرض کرے تو دل میں
نعرہ کر سامنے آواز کیا جب اٹکل
کھل گیا دوش سے لے تاکمر اللہ اللہ
ایک ہی زخم ہے دشمن کے گلے کی ہیکل
برہمی کارگہ رزم کی مت پوچھ کہ تھا
کوہ پر کوہ فلک پر تھی زمیں دل پر دل
جمع ہو آیا تھا اس ایک پر اک جم غفیر
اکثر اس میں سے گئے مارے کچھ اک بھاگے دہل
کرکے سرگوشی جسے پوچھتے ہیں بھاگے ہوئے
آتی ہے غیب سے آواز ہوا وہ فیصل
یہ ہے یا خالی ہے میدان مگر اس کی تیغ
اژدہا تھی کہ گئی خلق کو یک دم میں نگل
کیا بیاں کیجیے اب لشکر اعدا کی معاش
مخرج خوں ہے دہاں زخم کا ہے گا مدخل
چھوٹے ہے زخم سے ہر ایک کے فوارۂ خوں
ہر طرف دشت میں جاری ہے لہو کی جدول
سرخ تر چشم شجاعاں میں نظر آتی ہے
خون سے مسلخ قصاب کی خاک مقتل
کیا لکھوں اسپ سبک سیر کی اس کے تعریف
ادہم خامہ بھی لکھتے ہوئے جاتا ہے اچھل
جب عناں اس کی اچک لیتا ہے اس کا راکب
جلدی پویہ میں دکھلاوے ہے کیا کیا چھل بل
اس فلک سیر کا میدان مقرر ہے گا
تگ و پو کے لیے اثناے ابد اور ازل
آگیا اس میں نظر جانا کسو شخص کو تو
مارتے پل کے گیا اس کو چھلاوا سا چھل
قابو پانے کے لیے اس کے سوار اس پہ سدا
کہتے ہیں مدعی اس اسپ کے تیں ماریے چل
راکب اس کا کرے ہے سن کے تبسم یہ بات
یعنی ان گیدیوں کے کچھ ہے دماغوں میں خلل
جان یہ ہے ترے گھوڑے میں کہ تا روز جزا
گرد کو اس کے نہ پہنچے گی کبھو اس کی اجل
اک مصور نے اسے دیکھ کے دوڑایا خیال
دیکھوں اس باد کی مجھ سے بھی سکے شکل نکل
سر و سینہ کو کمر تک تو بنایا رکھ ہاتھ
اڑ گیا صفحۂ کاغذ پہ سے چھوتے ہی کفل
آبلے جیسے ستارے ہیں مرے دل کے بیچ
بس کہ اس چرخ سیہ رو سے رہا ہوں میں جل
آج تجھ نیر اعظم کی خلافت کا ہے روز
داد دے میری کہ دیکھوں میں اسے مستاصل
صاف ہو زنگ دل میرؔ کہ احباب میں ہے
واسطے تیرے مخالف کے ہیں تیغیں صیقل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |