در مدح نواب آصف الدولہ بہادر (I)

در مدح نواب آصف الدولہ بہادر
by میر تقی میر
314939در مدح نواب آصف الدولہ بہادرمیر تقی میر

ہوا کیے ہیں زبس شکوۂ فلک تحریر
سیہ ہے کاغذ مشقی کے رنگ لوح ضمیر
کروں نہ شکر جفاہاے آسماں کیوں کر
مری خرابی میں ان نے نہ کی کبھو تقصیر
دیا ہزاروں کو دست ان نے خانہ سازی کا
دل شکستہ کو میرے کیا نہ ٹک تعمیر
جو میں نے چاہا کہ جلد اپنا کام کریے تمام
تو روسیاہ نے اس کام میں بھی کی تاخیر
سیا تھا چشم طمع کو میں اک سحر اس پر
سو جام خون دیا ان نے جاے کاسۂ شیر
دماغ رفتہ شگفتن سے آشنا نہ ہوا
کہ اس چمن میں رکھا ان نے غنچۂ دل گیر
در قبول سے نومید پہنچی میری دعا
پھرایا عرش سے نالے کو میرے بے تاثیر
نہ دیکھا صفحۂ عالم کو میں کہ ان نے رکھا
ہمیشہ اپنا ہی حیران کار جوں تصویر
براے یک لب ناں مجھ ضعیف کو ان نے
ہلال وار کیا سارے شہر میں تشہیر
فلک کے شکوے میں تھا میں کہ ہم نشیں بولا
کہ اے جوان ستم کشتۂ سپہر پیر
غزل نہ لطف کی اک تونے میرؔ صاحب کی
سنی نہ ہم نے کوئی آشیانہ سوز صفیر
یہ سن کے فکر نے کی مطلع غزل کی فکر
فلک نے صفحۂ کاغذ پہ جو کیا تحریر

غزل (مطلع ثانی)

ہماری یار سے صحبت ہو کس طرح درگیر
گرہ میں نالۂ آتش فشاں سو بے تاثیر
سمجھ کے زلف کے کوچہ میں پاؤں رکھیو نسیم
کہ نکلی ہے یہیں سے راہ خانۂ زنجیر
ہزار قافلے یوں مصر سے چلے لیکن
کیا نہ ایک نے کنعاں کی سمت کو شب گیر
کھلا نہ منھ پہ ہمارے کہ ہے زباں پر آہ
بہ رنگ خامۂ شنجرف خوں چکاں تقریر
جگر ہے رشک کی جا اس شکار کا تیرے
کہ صیدگاہ میں پہلے ہی آگیا سرتیر
جہاں میں اہل جہاں کو ہو کشمکش بن کیا
کہ ایک تنگ قفس اور جس میں اتنے اسیر
سفر ہے دور کا درپیش آ ٹک آئینہ رو
کہ زاد راہ عدم ہو نگاہ وقت اخیر
نہیں تو دیر محبت کی رسم سے آگاہ
کرے ہیں کعبے کے سکاں کی بھی یہاں تکفیر
تمام نالہ ہوں اس بن مگرکہ روز نخست
کیا تھا تن کا مرے سودۂ جگر سے خمیر
غزل کو سن کے کہا ہم نشیں نے تجھ سا شخص
بجا ہو خاک ہو گر پیش آستان وزیر
وہ آستانہ کہ گویا ہے راستوں کی جبیں
کرے ہے سجدہ جسے آن کر صغیر و کبیر
شرف ہے جس سے یہ اس آستاں کو کیسا ہے
وزیر کہیے کہ فرماں روا ہے کوئی امیر
غرض جلیس سے شب کو کہ غم شریک جو تھا
یہ سن کے اے گنہ آمرز اور عذرپذیر

مطلع ثالث

خلل پذیر ہوا ہے دماغ خامۂ میرؔ
کہ تیری مدح میں کھولا زباں کو کر تقصیر
تمام قدرت و آصف صفت سلیماں جاہ
سوار دولت و گنجینہ بخش و دشمن گیر
فلک شکوہ و ستارہ حشم خدیو جہاں
ترے جلال کو کن لفظوں میں کروں تعبیر
زہے یہ حشمت و جاہ و جلال و قدرت و زور
کہ تیرے حکم کے آگے ہے سہل امر خطیر
ترے محرر دفتر کا ہے سدا محتاج
جہاں میں شہرہ عطارد جو ہے فلک کا دبیر
زہے علوے مراتب کہ در پہ بار نہ پائے
ہزار بار اگر چرخ مارے چرخ اثیر

شریک مشورۂ کارخانۂ عالم

کیا ہے تجھ کو قضا و قدر ہیں تیرے مشیر
رواں ہو صبح کا گر مرکب ظفرپیکر
تو تابہ شام کرے روم و شام تک تسخیر
کف سخا کی تری ریزش کرم کے حضور
گیا ہے قطرہ زناں شرمگیں ہو ابر مطیر
ہمم کو تیری بیاں کیا کروں کہ اے ممدوح
ہوئے ہیں خلق ترے بخشنے کو تاج و سریر
کروں میں عرض سو کیا ہفت گنج خسرو کو
کہ تیرے بخش دیے کے نہیں ہیں عشر عشیر
لکھوں سو کیا ترے خدام کی سخاوت کو
نہ پاوے وقت دہش رتبۂ قلیل و کثیر
ثبات حرف کو تیرے قلم کی کیا لکھیے
کہے تو خامۂ فولاد سے کیا تحریر
برات روزی کسو کی شرف کو دستخط کے
پہنچتی ہے تو نہیں مٹتی جوں خط تقدیر
نہیں ہے شہر میں نام و نشان منہیات
رہی ہے نے کوئی جنگل میں سو براے حصیر
مزاج رفع پہ بدعت کے ہو تو پھر نہ اٹھے
صداے نے کا تو کیا ذکر ہے قلم کی صریر
نسق کو کام تو فرماوے ایک آن اگر
تو پھر زمانہ قیامت تلک نہ پاوے تغیر
گیا ہے شور ترے عدل کا جو گردوں تک
کتاں سے آنکھ جھپکتا رہے ہے بدر منیر
بغیر غمزۂ خوباں رہا نہیں اب ایک
جہاں کے پردے پہ اوباش خانہ جنگ و شریر
جو چاہے تو کہ رہے فرش چاندنی دن کو
اٹھا کے تہ کرے پردے ظلام کے شب قیر
کرے ہے قطع امید آپ سے ووہیں دشمن
سنے ہے مجھ سے تری جب کہ صولت شمشیر
جو نکلے میان سے تو نامۂ فنا کہیے
کہ پہنچے جس کو اسے مٹنے سے نہیں ہے گزیر
رہے تو زخم لگا اس کا بہ نہ ہووے مگر
فلک زمیں سے ملے تب ہو اندمال پذیر
نہیں ہے فیل کہ زربفت پوش کوہ ہے وہ
کروں شکوہ کو اس کے سو کس روش تسطیر
رواں رکاب میں ہے آسمان زر گویا
ستارے جھول کے ایک ایک آفتاب نظیر
کمیت خامہ مرے ہاتھ کی ہے ران تلے
صفت کروں میں سمند وزیر کی تحریر
کسو کی آنکھ نہ پڑ سکتی تھی چھلاوے میں
پھرے تھا سطح زمیں پر وہ یوں سپہرمسیر
نظر جو ایک مصور کی آگیا جاتے
یہ ان نے ریجھ کے چاہا کہ کھینچئے تصویر
خیال دور سے دوڑا کے رہ گیا آخر
ہوا نہ گرد میں گردا بھی اس کا شکل پذیر
سن اس قماش کی مدحت کو مت سمجھیو یہ
کہ ہے غرض خز و دیبا و پرنیان و حریر
غرض یہ ہے کہ تری خاک آستان زہے
کہ اس کے رتبے کو ہرگز نہ پہنچے پھر اکسیر
وہ آستاں کہ گدا و غنی کا ہے مسجود
بقیہ عمر کرے صرف اس پہ یہ بھی فقیر
ہمیشہ ساتھ ترے دوستوں کے ہو اقبال
ترے عدو کی سدا مدبری کرے تدبیر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.