در مذمت برشگال کہ باراں دراں سال بسیار شدہ بود

در مذمت برشگال کہ باراں دراں سال بسیار شدہ بود
by میر تقی میر
314917در مذمت برشگال کہ باراں دراں سال بسیار شدہ بودمیر تقی میر

کیا کہوں اب کی کیسی ہے برسات
جوش باراں سے بہہ گئی ہے بات
بوند تھمتی نہیں ہے اب کی سال
چرخ گویا ہے آب در غربال
وہی یکساں اندھیر برسے ہے
آسماں چشم وا کو ترسے ہے
ماہ و خورشید اب نکلتے نہیں
تارے ڈوبے ہوئے اچھلتے نہیں
آب بن کوئی بولتا ہی نہیں
آسماں دیدہ کھولتا ہی نہیں
چرخ تک ہوگیا ہے پانی جو
ماہ و ماہی ہیں ایک جا ہر دو
لے زمیں سے ہے تا فلک غرقاب
چشمۂ آفتاب ہیں گرداب
خشک بن اب کی بار سبز ہوئے
موش دشتی کے خار سبز ہوئے
ابر کس کس سیاہ مستی سے
ہوتے جا ہیں بلند پستی سے
لڑکوں نے کی زمانہ سازی ہے
خاک بازی اب آب بازی ہے
ابر کرتا ہے قطرہ افشانی
پانی پانی رہے ہے بارانی
تنک آبی سے جان مت اغراق
ڈوبنے پر ہے کشتی آفاق
عقل مینہوں نے سب کی کھوئی ہے
بات باراں نے یاں ڈبوئی ہے
کیسا طوفان مینھ چھایا ہے
زخم دل نے بھی آب اٹھایا ہے
بیٹھے اٹھتے نہیں ہیں بام و در
یہ خرابی ہے شہر کے اندر
سقف آماج بوند پیکاں ہے
مینھ ہے یاکہ تیر باراں ہے
جیسے دریا ابلتے دیکھے ہیں
یاں سو پرنالے چلتے دیکھے ہیں
ابر رحمت ہے یاکہ زحمت ہے
ایک عالم غریق رحمت ہے
لے گئے ہیں جہان کو سیلاب
نقشہ عالم کا نقش تھا برآب
نہ ہے جلسہ نہ ربط یاراں ہے
شہر میں ہے تو باد و باراں ہے
روز و شب یاں ہمیشہ جھمکا ہے
ان دنوں رنگ برق چمکا ہے
بڑی بوندوں کی چوٹ سے ڈریے
سنگ باراں جہاں ہو واں مریے
پڑھتے ہیں یار درس حیرانی
آرسی کے بھی گھر میں ہے پانی
آدمی ہیں سو کب نکلتے ہیں
مردم آبی پھرتے چلتے ہیں
کتے ڈوبے گئے کہاں ہیں اب
سگ آبی ہی ہیں جہاں ہیں اب
وسعت آب پوچھ مت کچھ یار
کوچے موجوں کے ہوگئے بازار
معبد اب سارے گرتے آتے ہیں
زاہد خشک ڈوبے جاتے ہیں
تھا ٹھہرنا برابر ان کے شاق
مسجدوں میں کیا ہے استغراق
مینھ تو یاں لگے ہی رہتے ہیں
سارے عالم کے کان بہتے ہیں
غرق ہے چڑیا اور گلہری ہے
خشکی کا جانور بھی بہری ہے
مینھ ازبسکہ بہبہا ہے گا
اک جہاں کو ڈبو رہا ہے گا
تر ہیں جو خشک اور تروں میں ہیں
جانیں اک سوکھتی گھروں میں ہیں
شعر کی بحر میں بھی ہے پانی
بہتی پھرتی ہے اب غزل خوانی
لائی بارندگی کی چالاکی
آب خشک گہر پہ نمناکی
ہے زراعت جو پانی نے ماری
ہوگئی آبخست ترکاری
آب ہے گا جہاں کے سر تا سر
خوف سے سوکھتا ہے میوۂ تر
مست ہو ہوگئے ہیں مست شراب
غوطے کھاتے پھرے ہیں عالم آب
مستی ہے اب جو چاہیں سیر آبی
بط مے تو ہوئی ہے مرغابی
جتنی قحبائیں خشک تھیں مشہور
ان کی فرجوں سے سیل ہیں محشور
بھینگ خشتک انھوں کی تھیلا ہے
یہ خرابہ برے میں پھیلا ہے
دست غم اس قدر بہ طغیاں ہے
کہ ہر اک گوشہ بیچ طوفاں ہے
سیل دیکھے ہیں کوہساراں کے
لیے کشتی گدا ہیں باراں کے
جزر و مد جس کا تا فلک جا ہے
جو ہے تالاب قہر دریا ہے
ہر طرف ہیں نظر میں ابر سیاہ
پانی ہے جس طرف کو کریے نگاہ
سیل ہا در رکاب دیدۂ ماست
چشم تا کار می کند دریاست
پانی عالم کے تا بہ سر ہے گا
خشک مغزوں کا مغز تر ہے گا
خضر کیوں کرکے زیست کرتا ہے
آب حیواں میں پانی مرتا ہے
لکھے کیا میرؔ مینھ کی طغیانی
ہوگئی ہے سیاہی بھی پانی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.