در ہجو اکول

در ہجو اکول
by میر تقی میر
314916در ہجو اکولمیر تقی میر

اک ہے پرخور آشنا بے پیر
سینہ سوراخ جس سے ہے کف گیر
صدمنی دیگ ہے شکم اس کا
نفس اژدہا ہے دم اس کا
آنت شیطان کی ہے اس کی آنت
دانت اس کا ہے ہاتھی کا سا دانت
خستۂ جوع وہ جو آوے نہار
منھ ہے گویا کہ زخم دامن دار
شکل مت پوچھ کھانے کا ہے بلی
منھ ہے چھیپوں سے جیسے روٹی جلی
گال کلچے سے پھر توے سے سیاہ
کاسۂ سر ہے جیسے اوندھا کڑاہ
توند کالی جو کھول جاوے لیٹ
آہنیں ہے تنور اس کا پیٹ
راہ مطبخ میں پاوے ہے جو کبھی
چاٹ جاتا ہے دیگچوں تک بھی
کھینچے باورچیوں کے کیا کیا ناز
کتری گئی اس کے چوتڑوں پر پیاز
کھانا نکلے پر آوے ہے کیسے
چیل ٹوٹے ہے گوشت پر جیسے
وقت کھانے کے ہاتھ سے اس کا
قاب پر نان پنجہ کش گویا
کیا وہ دوپیازہ کھا کے ہو تازہ
اک نوالہ ہے ملا دوپیازہ
گوشت ہانڈی بھرا ہے ختک میں
ہنڈیاں گویا تھیں اس کی خشتک میں
خام طمعی سے اک کرے ہے آہ
دیکھ کر شب کو نان ہالۂ ماہ
نہ ٹلے دیکھ کر وہ قاب پلاؤ
منھ ہے منھ بیٹھا گرچہ کھاوے گھاؤ
کھانے پر جب وہ جی چلاتا ہے
لاٹھی پاٹھی بھی کھائے جاتا ہے
نہیں پہنچے جو کھانا کھانے لگ
ہڈیوں پر لڑے ہے جیسے سگ
بھوکھ کا باولا جو آتا ہے
لوگوں کو کاٹ کاٹ کھاتا ہے
دہوں میں دشمنوں سے بھی وہ لئیم
جائے گھل مل اگر سنے ہے حلیم
آش بغرا پہ مار بھی کھاوے
اس میں گو بوغرا نکل جاوے
کسی مفلس کے گھر جو جاتا ہے
کچھ نہیں خفتیں ہی کھاتا ہے
بھوکھ سے جب کہ غصے میں آوے
بز کوہی کی طرح جھنجھلاوے
ٹھڈیوں کو نگہ سے کھا جاوے
چنے لوہے کے بھی چبا جاوے
دہر کا جلنا آگ سے مانوں
بھوکھ اس کی جلے تو میں جانوں
نکلے بازار میں وہ جب چربوز
سر ہی پھوڑے ہے دیکھ کر تربوز
گھاس پات اور کانس کھاتا ہے
نیشکر پر وہ بانس کھاتا ہے
اس کے آنے کی سن کے بازاری
کرتے ہیں سودوں کی خریداری
کوئی تختہ کرے ہے دوکاں کو
کوئی لاوے بلا گزرباں کو
کنجڑے ڈھانکے ہیں ساگ پات اپنا
تکتے ہیں بنیے داؤ گھات اپنا
کہ مبادا ادھر کو آجاوے
سودے یک سو ہمیں نہ کھا جاوے
اینٹ پتھر بھی کھا گذر جاوے
الغرض پیٹ اپنا بھر جاوے
کیا کیا جینے کے کہیے چکھتا ہے
لیک پیٹ اس کو مارے رکھتا ہے
پیٹ اپنا بڑا جو پاتا ہے
گوہ تک کا بھی جیفہ کھاتا ہے
وہ قضارا ہوا مرا مہمان
کھا گئی اس کی میزبانی جان
گھر میں جو کچھ تھا بیچ منگوایا
کھانا اس کے لیے میں پکوایا
کتنا کھانا بیاں کروں تجھ سے
جس پہ سو میہماں کروں تجھ سے
مجھ سے تھی روزگار سے ان بن
خوب کھانا جو تجھ پہ ہے روشن
چار من گاجروں کا قلیہ تھا
دہ منی دیگ بیچ دلیہ تھا
روٹیاں کس قدر بتاؤں میں
جس کو دوچار سال کھاؤں میں
چاہ کرکے گرا جو وہ بلاع
مدد روح اشعب طماع
کہنے لاگا میں ہوکے بجوالا
کیا ہوا یاں سے قلیے کا پیالہ
تھی ابھی روٹیوں کی جیٹ کی جیٹ
میں رہا کہتا کھا گیا وہ سمیٹ
کھانا کوئی اور کیا کہے اس کا
سارے منھ دیکھتے رہے اس کا
جب مرے گا وہ بھوکھ کا روگی
روح توشے کی روٹی میں ہوگی
کھانے کی بو جو ناک میں پیٹھے
مر گیا ہووے تو بھی اٹھ بیٹھے
عقل باور اگرچہ کرتی نہیں
وہ مرے بھوکھ اس کی مرتی نہیں
بھوکھے اس کا جو جی نکل جاوے
گور میں بھی کفن نگل جاوے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.