در ہجو عاقل نام، ناکسے کہ بہ سگاں انسے تمام داشت

در ہجو عاقل نام، ناکسے کہ بہ سگاں انسے تمام داشت
by میر تقی میر
314914در ہجو عاقل نام، ناکسے کہ بہ سگاں انسے تمام داشتمیر تقی میر

اک جو لچر کو رزق کی وسعت سی ہوگئی
تنگی کی حوصلے نے تو رجعت سی ہوگئی
کتوں کے ساتھ کھانے لگا کتوں سے معاش
چچڑی کی طرح شام و سحر کتوں کی تلاش
پاکیزگی طبع و لطافت وہ برطرف
کتا بغل میں مارے لگا پھرنے ہر طرف
دتکارو کتے کو تو لہو اپنا وہ پیے
ہے اس کی استخواں شکنی کتوں کے لیے
یا جھوٹے ہاتھ کتے کو مارا نہ تھا کبھی
یا کتوں سے چٹایا ہے اب اپنے منھ کو بھی
آیا جو ایک روز وہ بے تہ چلا ہوا
کتا ازار اس کے سے نکلا بندھا ہوا
یک سگ گزیدہ کی سی طرح جھومنے لگا
پھر کھول اس کے منھ کے تئیں چومنے لگا
ایسی بھی ہم نے دیکھی نہیں کتوں کی ہوس
گردن میں اپنے ڈالے پھرے روز و شب مرس
ٹکڑا ہوجس کے ہاتھ میں یہ اس کا یار ہے
جیسے سگ سراے سگ ہر سوار ہے
کتوں کی جستجو میں ہوا روڑا باٹ کا
دھوبی کا کتا ہے کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا
تھکتا ہے پھر جو کرتے ہوئے دوڑ اور دھپاڑ
لیتا ہے بے دماغ ہو لوگوں کے کپڑے پھاڑ
جو ہڈیوں پہ لڑتا رہا ہو بسان سگ
ہو آدمیت اس کو بھلا کس مقام لگ
انساں کو انس کتے سے اتنا ہوا ہے کب
ناپاک اس کو جانے ہیں پاکیزہ لوگ سب
اصحاب کہف کا بھی جو سگ ہو تو ہے وہ سگ
نجم الدیں کے بھی کتے کو کتا کہے ہے جگ
کر سگ تخلص اپنا جو آیا بروے کار
اکراہ سگ لوند سے کرنے لگا دیار
رہتے نہیں نفور تو سگ بان بے شعور
کھاتے میں وہ بھی کہتے ہیں کتے کو دور دور
کیا جانیے کہ یہ گہہ سگ کیا متاع ہے
بازار میں جو دیکھے ہے سگ کو سماع ہے
آدم گری اڑا رکھی حرف و سخن گیا
دیکھا جو خوب تو سگ دیوانہ بن گیا
دم لابہ جو دبے تو لگے کرنے بدخصال
دوڑے وگرنہ کاٹنے کو کتے کی مثال
کم بخت یک غریب جو مردہ سا پائے یہ
مرگھٹ کے کتے کی سی طرح پھاڑ کھائے یہ
ور مدعی ہو ٹک بھی قوی دل قوی نصیب
پھر آگے اس کے سوکھی سی بلی ہے یہ غریب
رہتا ہے سخت شیفتہ کتوں کے بال کا
پلا یہ ہے کہے تو کسی کتے وال کا
کتوں کی لے کے زرد و سیاہ و سپید پشم
کس کس طرح سے دیکھتا ہے داب داب چشم
کتوں کے شوق میں جو یہ آتش ہے زیر پا
کہنا ہے اس کو اب سگ پاسوختہ بجا
اس کی پلیدی شہرۂ ہر شہر ہی رہی
کتے کے کاٹے کی سی اسے لہر ہی رہی
دلی میں تین کتیاں کہیں لے کے پالیاں
ہمسایوں کی جنھوں کے لیے کھائیں گالیاں
وہ مرگئیں تو دیر رہا روتا غم زدہ
پشتی کے پیچھے پھر نہ ہنسا ٹک ستم زدہ
لونگی کا گرم غم جو رہا سوکھ نخ ہوا
برفی کی تعزیت میں سگ روے یخ ہوا
بلی جو پالتا تو بھلا ایک بات تھی
آئیں میں اس کی دوستی ایماں کے ساتھ تھی
توراں کے لوگ ہوویں کہ ہوں اہل اصفہاں
کتا تو کشتنی ہے سب اسلامیوں کے ہاں
جس کو خدا خراب کرے پھر وہ کیا کرے
کیوں کر زباں نکالے نہ جوں سگ پھرا کرے
آواز دے دے کتوں کو توڑے ہے اپنی جان
مر جائے گا یہ بھونکتے ہی بھونکتے ندان
ہے بسکہ سگ پرست مرے گا جو یہ دنی
توشے میں اس کے ہوگا نہ کچھ غیر سگ کنی
کتوں کے پیچھے پھرتا ہے گلیوں میں ڈور ہو
یہ سب ہے اس لیے کہ ہر اک جاے شور ہو
اس وضع ساختہ کے ہوں احمق فریفتہ
بہرہ ہے جن کو عقل سے وے کیوں ہوں شیفتہ
ہے اس طرح کے معرکہ گیروں سے پر جہاں
بہتیرے ایسے کتے نچاتے پھرے ہیں یاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.