در ہجو نااہل مسمیٰ بہ زبان زد عالم

در ہجو نااہل مسمیٰ بہ زبان زد عالم
by میر تقی میر
314913در ہجو نااہل مسمیٰ بہ زبان زد عالممیر تقی میر

سنیو اے اہل سخن بعد از سلام
چھیڑتا ہے مجھ کو اک تخم حرام
پر نہیں مرغی کا گرم طیر ہے
وہم میں شہباز کا ہم سیر ہے
کام مجھ کو کچھ نہیں ہے اور سے
بلکہ اس بھی طرز سے اس طور سے
شاعری کو میری ہوگے جانتے
تم چنانچہ سب مجھے ہو مانتے
میں ہمیشہ سے رہا ہوں باوقار
کن دنوں تھا ہجو کا کرنا شعار
گر کنھوں نے کچھ کہا میں چپ رہا
ہجو اس کی ہوگئی اس کا کہا
کیا ہوا گر چاند پر پھینکے ہیں خاک
پڑتی ہے ان سب کے منھ پر میں ہوں پاک
رہیو شاہد کچھ نہیں میرا گناہ
مدعی بے ہیچ ہے یہ روسیاہ
تھا تحمل مجھ کو میں درویش تھا
دردمند و عاشق و دل ریش تھا
پر کروں کیا لاعلاجی سی ہے اب
غصے کے مارے چڑھی ہے مجھ کو تب
ایسے کتنے ہیں جو اب شاعر بنے
مدتوں یہ لونڈے آئے مجھ کنے
ایک باتوں سے مری آدم ہوا
اک نظر سے شہرۂ عالم ہوا
ایک نے دیواں کی میرے نقل لی
اس دوانے کی کنھوں نے عقل لی
ایک میرے طرز پر کہنے لگا
دوسرا پیرو مرا رہنے لگا
سارے عالم میں ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
دور سے کرتا ہوں بیٹھا سب کی دید
کوئی سر کھینچو ہے میرا مستفید
کوئی بے تہ گو نہ جانے میری قدر
پائیں ہے پائین آخر صدر صدر
ہے گی شخصیت خدا کی اور سے
ہاتھ کب آوے بزرگی زور سے
ایک لچا دے جو اک عمدہ کو بھوگ
تو اسے کیا کچھ طرف جانیں گے لوگ
جو بڑے ہیں وے ہی آخر ہیں بڑے
ایسے لچے بہت پھرتے ہیں پڑے
شہر میں آیا میں بعد از بست سال
گم تھا یاں سررشتۂ قال و مقال
کسب جو کرتے تھے یہ فن شریف
ان میں سے کوئی نہ تھا میرا حریف
کتنے اک نو مشق تھے گرم سخن
سو بچارے آپھی ناآگاہ فن
مدعی میرا ہوا یہ بے ہنر
مردۂ صدسال سا بے نور تر
کاسہ لیس و مایۂ خبث و حسود
قلیۂ دہ روز سے بھی بدنمود
آتے اچھا ہے جو اس کو روک دو
ورنہ منھ دیکھو تو ووہیں اوک دو
باپ اس کا سخت ناداں نادرست
کوڑے کی سی گندی بلی قاق و سست
ایک جا آیا شترقد گھر گیا
واں شتر غمزہ سا مجھ سے کر گیا
رہ گیا میں پی کے لوہو کا سا گھونٹ
یعنی دیکھوں بیٹھے ہے کس کل یہ اونٹ
اس تحمل پر نہ کی مطلق نظر
خار پہلو کا ہوا ہر جا لچر
جب لگا ہے ناچنے مستی سے خوب
تب لیا میں نے قلم کے زیر چوب
مستی اس کی ساری اب جھڑ جائے گی
دھوم ساری گلیوں میں پڑ جائے گی
جب بڑوں سے مار ناہموار کھائیں
کج خرامی سے تب اپنی باز آئیں
راہ سیدھا ہو کے چلتا ہے بلے
اونٹ جب آیا پہاڑوں کے تلے
اونٹ کی خلقت پہ ہے قدرت کو ناز
اس کی خلقت کم ہے کیا اے بے نیاز
ہیئت اس کی مضحکہ ہے سوانگ ہے
جید عوج ابن عنق کی ٹانگ ہے
سر کے تیں اس کے جو دیکھوں کر نگاہ
بانس پر اک اوندھی ہانڈی ہے سیاہ
تیرہ رو مضحک سراپا زور ہے
دم اگر ہووے تو پھر لنگور ہے
شکل و صورت دیکھ کر حیراں رہو
بے گماں سب مل کے لگ لگ ہی کہو
بیٹھے تو بیٹھا ہے گویا بوتیمار
آتے جاتے جاویں اس کو جوتی مار
چال جب چلنے لگے سر جھاڑ کر
پاؤں کو پہلے رکھے منھ پھاڑ کر
بال و پر رکھتا نہیں بے پا و سر
ورنہ تھا یہ بھی عجائب جانور
ایک دن بیٹھے تھے یاں ذات شریف
وارد اس دن ہوگئے کتنے ظریف
ایک بولا دیکھ کر حیران ہو
یہ جزائر کا کوئی حیوان ہو
یاں تو ایسا جانور دیکھا نہیں
سر کہیں ہے پاؤں اس کے ہیں کہیں
ایک کے آیا مکوڑا وہم میں
ایک کے مور سواری فہم میں
ایک نے ہنس کر دیا اس کو ڈھکیل
اور بولا اے تری قدرت کے کھیل
کیسا اعجوبہ نیا پہنچا ہے یاں
چونچ ہو تو ہے شتر مرغ کلاں
ایک بولا کرکے چشمک میری اور
واہ صاحب جانور پالا ہے زور
ایک دن باہر تو ہو لے کر کھڑے
یہ اچنبھے یوں نہیں رہتے پڑے
جائے اس وحشی کا ٹک وسواس بھی
چوک بھی ہے پاس یہ نسناس بھی
اس کو یاروں نے غرض کیا کیا کہا
لیک یہ خر نامشخص ہی رہا
یہ جو ہے موشک دوان و شور چشم
موش دشتی چہرہ و شب کور چشم
بے سبب سرگرم کیں پیہم ہوا
مستحق لعنت عالم ہوا
چل قلم اب ہے ارادہ جنگ کا
پاس کب تک کیجے نام و ننگ کا
یاں زبردستوں کو دعویٰ کھا گیا
یہ چھپارستم کہاں سے آگیا
ناقباحت فہم کو دعویٰ پڑا
ہو کے تنکا سا پہاڑوں سے اڑا
ہاتھی کی ٹکر کو ہاتھی ہی اٹھائے
چیونٹی کا کیا جگر جو منھ پر آئے
جنگ ہاتھی کی ہو گو اس کو ہوس
پر اسے ہے موت کا ریلا ہی بس
ایک دھکے میں کہاں وہ کامنی
پودنے کی سی ہے اس کی ضامنی
میں نے پاس اس کا کیا حد سے زیاد
پر کمی کرتا ہے یہ ابن زیاد
قبلہ کہتے کہتے ہاجی ہوگیا
پاس ظاہر چھوڑ پاجی ہوگیا
رشک شہرت سے مرے مرنے لگا
میری عزت کا حسد کرنے لگا
لگ گئی چپ اس کو میرے شور سے
یہ نہ سمجھا ہے خدا کی اور سے
یہ قبول خاطر و لطف سخن
دے ہے کب سب کو خداے ذوالمنن
ایک دو ہی ہوتے ہیں خوش طرز و طور
اب چنانچہ میرؔ و مرزاؔ کا ہے دور
خصمی وہ کریے کہ ہو معقول خلق
نے انھوں سے جو کہ ہوں مقبول خلق
دشمنی تھی اس کو مجھ سے کیا ضرور
حیف ایسی عقل لعنت یہ شعور
ہوں جو میں پرتوفگن تو ہے یہ کیا
خور کے آگے ذرہ کب ٹھہرا رہا
خون دل آشام ہیں جو صبح و شام
وے بھی لیتے ہیں ادب سے میرا نام
یہ مری رہ کا نہ حائل ہوسکے
یہ موئی جوں کیا مقابل ہوسکے
میں نے الٹی اجگروں کی دم میں صف
ادھ موئی سی چھپکلی کیا ہو طرف
رکھتی ہے میری شرافت اشتہار
گو یہ ناسید کہے ہے کیا چمار
ہجو کی جو ان نے میں کیا دب گیا
بھونکنے پر سگ کے ہاتھی کب گیا
ننگ ہے میری توجہ اس طرف
حیف ہے میلان دریا سوے کف
دار و دستہ سے ہے اس کے مجھ کو شرم
تب تو میں باتیں کروں ہوں نرم نرم
ان عزیزوں کا نہایت پاس ہے
ورنہ یہ ملعون کیا کناس ہے
جو نہ سمجھا تیغ خامے کی ہے پاس
کاٹوں گا یوں جس طرح کٹتی ہے گھاس
جب سے لے آیا قدم اپنا یہ شوم
تب سے ویراں ہوگئی یہ مرزبوم
ایک بدیمنی ہی ہے گی بوم میں
لطف وہ پاتے ہیں ہم اس شوم میں
دیدنی ہے قدرت رب ودود
ایسی اچرج کم ہی ہوتی ہے نمود
کیا کمی ہے یہ جو عزت کم کرے
گو نہ شیطاں سجدۂ آدم کرے
کرتی ہے تعظیم میری کائنات
لعنت اس پر ہوتی ہے دن اور رات
یا بلا ہے یہ سمج خایہ گزک
میرے دتکارے گئے جھٹ سے دبک
میری ہیبت سے نکل جاتا ہے موت
دشمنی کی ان نے اپنی ماں کی چوت
بیت کہنا چاہتا ہے سو ہنر
شاعری سمجھا تھا کیا خالہ کا گھر
نامبارک ہی نہیں سادہ بھی ہے
الو ہے اور الو کی مادہ بھی ہے
عقل سے کس طرح ہووے بہرہ ور
ہے کسو حافظ کا نطفہ پاچہ خر
پر وہ حافظ جو ہو قرآں خوان قبر
اس سے لیں کار تلاوت گو بہ جبر
جھڑ گیا ہووے دماغ اس کا تمام
پڑھتے پڑھتے شور سے ہر صبح و شام
وہ خرف جورو سے جا یکجا ہوا
ایسا الو ماخرا پیدا ہوا
دیکھ کر ان کی خرامی پاے سرو
ایک کوے نے کی تقلید تدرو
کود کر چلنے لگا آخر کو راہ
اپنی بھی رفتار بھولا رو سیاہ
کاشکے ہوویں مخدر شیخ و شاب
پھٹے سے منھ جو پکارے کا ہے باب
گوکہ یہ لچپن کرے کیا مال ہے
آگے میرے جھانٹ کا سا بال ہے
چاہوں گا جب پھینک ہی دوں گا اکھاڑ
ایسی پشمیں سیکڑوں ڈالی ہیں جھاڑ
بدنمائی اس کی ہے بے ساختہ
کیا ہے یاں میش بچہ انداختہ
دیکھ اسے یاد آوے قدرت کاملہ
کیا بلا ہے مادہ خوک حاملہ
گرگ گردن خوک چشم و غوک سر
غول صحرائی کا بچہ ہے مگر
چار سکھیاں کہہ کے شاعر ہوگیا
اس فن مشکل کا ماہر ہوگیا
باپ کو ان نے بنا رکھا ہے اوت
ہیں کہاں ایسے سعادت مند پوت
کم ہوا ہے گا جو اس کا زور پا
جانتا ہے اس کو پیری کا عصا
کچھ نہیں معلوم اس کو سر کار
تب تو ٹھہرایا ہے اس کو رازدار
اس زنازادے نے جو لب وا کیا
پہلے ماں کا راز ہی رسوا کیا
ایک دن سب کے تئیں جلوا دیے
یار ماں کے باپ کو دکھلا دیے
پھر حقیقی باپ سے جاکر ملا
اس مجازی کا کیا اس سے گلہ
پیسے اس کے کھاکے جب کٹا ہوا
یاں کسی تقریب آ پیدا ہوا
تب سے روز و شب اسی کے ساتھ ہے
اس خرف کی ڈاڑھی اس کے ہاتھ ہے
بس قلم نفریں ہے میری بس اسے
ہے دماغ بحث پاجی اب کسے
رکھ زباں کیدھر گیا تیرا مزاج
پوچ گو بہتیرے پھرتے ہیں پواج

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.