دشت ایمن سے چلے کوئے بتاں تک پہنچے

دشت ایمن سے چلے کوئے بتاں تک پہنچے
by عابد علی عابد

دشت ایمن سے چلے کوئے بتاں تک پہنچے
تیرے دیوانے رموز دو جہاں تک پہنچے

بت کے راندے ہوئے اللہ کے ٹھکرائے ہوئے
آخر کار در پیر مغاں تک پہنچے

غم کو ہیں عار وہ آہیں کہ لبوں تک آئیں
دل پہ ہیں بار وہ شکوے کہ زباں تک پہنچے

مرحلے اور بھی ہیں جاں سے گزرنے کے سوا
عشق میں ہم نفسو کوئی کہاں تک پہنچے

ترے جلووں کی رسائی کا تماشا دیکھا
منزل دل سے چلے منزل جاں تک پہنچے

کاروان غم دل دشت جنوں سے گزرا
آج ہم غایت عمر گزراں تک پہنچے

عشق کا ساتھ دیا صدق و یقیں تک آئے
عقل سے کام لیا وہم و گماں تک پہنچے

اہل منصب نے کیا کور نگاہوں کو سلام
اہل دل بارگہہ دیدہ وراں تک پہنچے

جن کو رہنا تھا رہے ہم سخنوں کے ہم راہ
جن کو جانا تھا گئے بزم شہاں تک پہنچے

مل گئیں سب حرم و دیر کی راہیں آکر
شکر صد شکر کہ ہم شہر مغاں تک پہنچے

رہ گئے یار قتیل غم دوراں ہو کر
ہم سے کچھ سوختہ جاں کوئے بتاں تک پہنچے

پھر بہار آئی کہ ناگاہ اسیران غیور
ہم رہ شاخ قفس برق تپاں تک پہنچے

کچھ کرو چارہ گرو دل کی گراں جانی کا
شیشہ ٹوٹے تو کف شیشہ گراں تک پہنچے

تمہیں سچے کہ رہا رنگ تغافل یکساں
ہمیں جھوٹے کی خموشی سے فغاں تک پہنچے

اپنے احوال و مقامات سے میں واقف ہوں
وہ تو حالات ہیں جو اہل جہاں تک پہنچے

خوشنوائی کی ملی داد کہ میرے اشعار
مہ وشاں کج کلہاں خوش نگہاں تک پہنچے

میں نے رسماً جو کیا عشق بتاں سے انکار
کیا تبسم لب لعلین بتاں تک پہنچے

میری آنکھوں سے گریزاں ہیں وہ جلوے اب تک
عکس جن کے مرے آئینۂ جاں تک پہنچے

دامن یار کی منزل سے گزر کر آخر
دست عشاق سر تاجوراں تک پہنچے

چاند اترا مرے کاشانے میں عابدؔ کل رات
دیکھیے رات کی یہ بات کہاں تک پہنچے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse