دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی
دشت غربت ہے علالت بھی ہے تنہائی بھی
اور ان سب پہ فزوں بادیہ پیمائی بھی
خواب راحت ہے کہاں نیند بھی آتی نہیں اب
بس اچٹ جانے کو آئی جو کبھی آئی بھی
یاد ہے مجھ کو وہ بے فکری و آغاز شباب
سخن آرائی بھی تھی انجمن آرائی بھی
نگہ شوق و تمنا کی وہ دل کش تھی کمند
جس سے ہو جاتے تھے رام آہوئے صحرائی بھی
ہم صنم خانہ جہاں کرتے تھے اپنا قائم
پھر کھڑے ہوتے تھے واں حور کے شیدائی بھی
اب نہ وہ عمر نہ وہ لوگ نہ وہ لیل و نہار
بجھ گئی طبع کبھی جوش پہ گر آئی بھی
اب تو شبہے بھی مجھے دیو نظر آتے ہیں
اس زمانہ میں پری زاد تھی رسوائی بھی
کام کی بات جو کہنی ہو وہ کہہ لو اکبرؔ
دم میں چھن جائے گی یہ طاقت گویائی بھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |