دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا

دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا
by مضطر خیرآبادی

دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا
بتوں کے عشق میں یاد خدا سے کچھ نہ ہوا

میں ایک کیا ہوں سبھی با وفا ہیں شاکئ جور
تم ایک کیا ہو کسی بے وفا سے کچھ نہ ہوا

بھری تو تھی مگر اپنے اثر کو لا نہ سکی
گئی تو تھی مگر آہ رسا سے کچھ نہ ہوا

وہ آرزو ہوں کہ جس آرزو کی کچھ نہ چلی
وہ مدعا ہوں کہ جس مدعا سے کچھ نہ ہوا

یہی سہی کہ خوشی سے ملے ملے تو سہی
یہی سہی کہ ہماری دعا سے کچھ نہ ہوا

وہ ایک ہم کہ جو چاہا کیا وصال کی رات
وہ ایک تم کہ تمہاری حیا سے کچھ نہ ہوا

انہیں بلا کے تصور میں ہم ملے مضطرؔ
ہوس تو ہو گئی پوری بلا سے کچھ نہ ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse