دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں
دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں
اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کر چکے ہیں
مرنے سے تم ہمارے خاطر نچنت رکھیو
اس کام کا بھی ہم کچھ اسلوب کر چکے ہیں
حسن کلام کھینچے کیوں کر نہ دامن دل
اس کام کو ہم آخر محبوب کر چکے ہیں
ہنگامۂ قیامت تازہ نہیں جو ہوگا
ہم اس طرح کے کتنے آشوب کر چکے ہیں
رنگ پریدہ قاصد باد سحر کبوتر
کس کس کے ہم حوالے مکتوب کر چکے ہیں
تنکا نہیں رہا ہے کیا اب نثار کریے
آگے ہی ہم تو گھر کو جاروب کر چکے ہیں
ہر لحظہ ہے تزاید رنج و غم و الم کا
غالب کہ طبع دل کو مغلوب کر چکے ہیں
کیا جانیے کہ کیا ہے اے میرؔ وجہ ضد کی
سو بار ہم تو اس کو محجوب کر چکے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |