دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے
دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے
کیا یوں ہی کوئی حسرت آغوش میں مر جائے
قبر اس کی پہ لازم ہے خم مے کا چڑھانا
جو مست کہ عشق بت مے نوش میں مر جائے
ہے طرفہ اذیت کوئی کس طرح خدایا
یاد صنم وعدہ فراموش میں مر جائے
سرگوشی کی رخصت نہ کبھی غیر کو دینا
گر وہ ہوس زلف و بنا گوش میں مر جائے
گر غنچۂ محجوب تری وضع کو دیکھے
انداز حیائے لب خاموش میں مر جائے
اللہ رے برقعہ ترا اور اس کے یہ روزن
دیکھے جو چھپا یوں تجھے روپوش میں مر جائے
کیا فائدہ پھولوں کی چھڑی اس پہ لگانا
اے گل جو تری ایک ہی پاپوش میں مر جائے
یارب نہ وہ دن اس کے تو عاشق کو دکھانا
معشوق کے آتے ہی جو آغوش میں مر جائے
آتا ہے مجھے مصحفیؔ دل اپنے پہ رونا
افسوس ہے یوں غش سے وہ آ ہوش میں مر جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |