دل آئنہ ہے جوہر عکس رو ہے
دل آئنہ ہے جوہر عکس رو ہے
یوں ہی تجھ سے میں ہوں یوں ہی مجھ میں تو ہے
اگر گل ہے تو جان بلبل بھی تو ہے
تو ہر رنگ میں رنگ تو ہر بو میں بو ہے
مری خاک اشک ندامت سے تر ہے
تیمم بھی کریے تو حکم وضو ہے
بجا لن ترانی ہے خاموش ہیں ہم
جو اٹھ جائے پردہ تو پھر گفتگو ہے
تری زلف پر خم کا دیوانہ ہوں میں
نہ زنجیر پا ہے نہ طوق گلو ہے
تصور میں ابرو کے جو مر گیا ہوں
پس مرگ کعبہ مرے روبرو ہے
گریبان صد چاک ہے دامن گل
نہ پیوند کی جا نہ کار رفو ہے
ترے منہ کو دیکھوں ترے ساتھ سوؤں
یہ ہی حسرت دل یہ ہی آرزو ہے
میں دوران سر سے جو سر پھوڑتا ہوں
نہ مے ہے نہ ساقی نہ جام سبو ہے
چھری کیا ہے تلوار بھی مار قاتل
قبائے بدن کو بھی شوق رفو ہے
نہاتا ہے غیروں کے ہم راہ قاتل
مرے آب شمشیر ہی تا گلو ہے
ترے جلوہ سے ہے دل عرشؔ روشن
جو وہ صبح صادق تو خورشید تو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |