دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں
دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
صبر بیمار عشق کی ہے دوا
پر طبیعت سے میری راس کہاں
صبح آنے کا اس کے وعدہ ہے
مجھ کو پر رات بھر کی آس کہاں
دشمن جاں کو دوست سمجھا میں
وہ کہاں میں کہاں قیاس کہاں
کیا ہوا اس کو دیکھتے ہی بیاںؔ
ہوش کیدھر گئے حواس کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |