دل بیتاب آفت ہے بلا ہے
دل بیتاب آفت ہے بلا ہے
جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے
ہمارا تو ہے اصل مدعا تو
خدا جانے ترا کیا مدعا ہے
محبت کشتہ ہیں ہم یاں کسو پاس
ہمارے درد کی بھی کچھ دوا ہے
حرم سے دیر اٹھ جانا نہیں عیب
اگر یاں ہے خدا واں بھی خدا ہے
نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے
ہمارا گفتگو کا ڈھب جدا ہے
کوئی ہے دل کھنچے جاتے ہیں اودھر
فضولی ہے تجسس یہ کہ کیا ہے
مروں میں اس میں یا رہ جاؤں جیتا
یہی شیوہ مرا مہر و وفا ہے
صبا اودھر گل اودھر سرو اودھر
اسی کی باغ میں اب تو ہوا ہے
تماشا کردنی ہے داغ سینہ
یہ پھول اس تختے میں تازہ کھلا ہے
ہزاروں ان نے ایسی کیں ادائیں
قیامت جیسے اک اس کی ادا ہے
جگہ افسوس کی ہے بعد چندے
ابھی تو دل ہمارا بھی بجا ہے
جو چپکے ہوں کہے چپکے ہو کیوں تم
کہو جو کچھ تمہارا مدعا ہے
سخن کریے تو ہووے حرف زن یوں
بس اب منہ موند لے میں نے سنا ہے
کب اس بیگانہ خو کو سمجھے عالم
اگرچہ یار عالم آشنا ہے
نہ عالم میں ہے نے عالم سے باہر
پہ سب عالم سے عالم ہی جدا ہے
لگا میں گرد سر پھرنے تو بولا
تمہارا میرؔ صاحب سرپھرا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |