دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
رات کو سینہ بہت کوٹا گیا
طائر رنگ حنا کی سی طرح
دل نہ اس کے ہاتھ سے چھوٹا گیا
میں نہ کہتا تھا کہ منہ کر دل کی اور
اب کہاں وہ آئینہ ٹوٹا گیا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
میرؔ کس کو اب دماغ گفتگو
عمر گزری ریختہ چھوٹا گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |