دل جھکا مائل طبیعت ہو گئی
دل جھکا مائل طبیعت ہو گئی
آج بسم اللہ الفت ہو گئی
محو دل سے سب شکایت ہو گئی
سامنے جب ان کی صورت ہو گئی
میرا حال زار تو دیکھا مگر
یہ نہ پوچھا کیوں یہ حالت ہو گئی
وہ فریب ناز دے کر لے گئے
کتنی ارزاں دل کی قیمت ہو گئی
دل میں جب تک آہ تھی اک بات تھی
لب تک آتے ہی حکایت ہو گئی
جب نہ ڈالا اس نے آ کر کوئی پھول
گل ہماری شمع تربت ہو گئی
فتنہ سازی تک جو تھی مشق خرام
رفتہ رفتہ وہ قیامت ہو گئی
کیسی مطلب آشنا تھی چشم شوخ
دل اڑایا اور چمپت ہو گئی
چشم پر نم نے کیا افشا راز
آبروئے ضبط غارت ہو گئی
دل کی چالوں کا نتیجہ یہ ہوا
وقت سے پہلے قیامت ہو گئی
دے دیا دل جس کو ہم نے دے دیا
ہو گئی جس سے محبت ہو گئی
کہہ گئے احسنؔ کے منہ پر آج وہ
تیری صورت سے بھی نفرت ہو گئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |