دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں

دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں
by قربان علی سالک بیگ

دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں
سب کو دیکھے دکھائے بیٹھے ہیں

چاک دامن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم
دل کے ٹکڑے اڑائے بیٹھے ہیں

وہ سر بزم حال کیا پوچھیں
میرے مطلب کو پائے بیٹھے ہیں

اب اجل کیوں کہ آئے گی دیکھوں
وہ عیادت کو آئے بیٹھے ہیں

کرتے ہیں یوں دعا کہ ہم گویا
ہاتھ اثر سے اٹھائے بیٹھے ہیں

اگر آتے ہیں وہ تو آنے دو
ہم بھی آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں

اس کے دل میں اثر کر اے گریہ
غیر کیا گھر بنائے بیٹھے ہیں

اس کے وعدے کو جانتے ہیں ہم
شام سے زہر کھائے بیٹھے ہیں

در سے وحشت زدوں کو خود نہ اٹھا
یہ کوئی ایک جائے بیٹھے ہیں

اب تو لب تک بھی آ نہ اے نالے
ہم تجھے آزمائے بیٹھے ہیں

تم بھی کر جاؤ پائمال کہ ہم
نقش ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

کس کو دیکھ اے حضرت سالکؔ
آج کچھ منہ بنائے بیٹھے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse