دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
تیرے مجنوں کو کہاں پاس ہے رسوائی کا
برگ گل سے بھی کم اب کوہ غم اس نے جانا
یہ بھروسا تو نہ تھا دل کی توانائی کا
کیجیے چاک گریباں کو بہار آئی ہے
ذکر بے لطف ہے یاں صبر و شکیبائی کا
سرو ثابت قدم اس واسطے گلشن میں رہا
نہیں دیکھا کبھی جلوہ تری رعنائی کا
زور منظور نظر تو تو فغاںؔ رکھتا ہے
میں تو بندہ ہوں تری چشم کی بینائی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |